لاک ڈاون کے نتیجے میں بیرون وادی طلبہ ، تاجر اور دیگر افراد سخت پریشان

جود ھ پور، شملہ، کریلہ، کولکتہ اور گوائو میں سینکڑوں افراد شدید گرمی میں پھنسے ہوئے ہیں

گرمی سے بُرا حال، کھانے پینے کیلئے درکار رقم خت، مالکان مکان کمرے خالی کرنے پر کرتے ہیں مجبور

سرینگر/23اپریل: وادی کشمیر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے بیرون وادی مختلف جگہوں پر گذشتہ ایک ماہ سے درماندہ ہوکے رہ گئے ہیں جبکہ گرم ریاستوں میں کشمیریوں کو شدید اور ناقابل گرمی کاسامنا کرنا پڑرہا ہے اس کے علاوہ ان کے پاس موجود رقم بھی اب ختم ہوچکی ہے اُس پر بدقسمتی یہ کہ جن مکانوں میں یہ لوگ رہ رہے ہیں وہ انہیں کمرے خالی کرنے کیلئے کافی دبائو ڈال رہے ہیں ۔ کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق جودھ پور میں پھنسے کشمیری طلبہ ، تاجر اور دیگر افراد سخت پریشانی کے شکار ہوچکے ہیں کیوں کہ لاک ڈاون کی وجہ سے ان کے پاس موجود رقم ختم ہوچکی ہے جس کے نتیجے میں وہ فاقہ کشی پر مجبور ہوچکے ہیں اس کے علاوہ جہاں یہ لوگ رہتے ہیں ان کے مالک مکان انہیں کمرے خالی کرنے پر بھی دبائو ڈال رہے ہیں ۔ جبکہ ناقابل برداشت اور جھلسادینے والی گرمی سے ان کا حال بے حال ہوچکا ہے جبکہ کھانے پینے کا سامان کے علاوہ نقدی بھی اب ختم ہوچکی ہے ۔ انہوںنے اپنی روداد سناتے ہوئے تعمیل ارشاد کو فون پر بتایا کہ جودھ پور کے مختلف علاقوں میں کشمیر سے تعلق رکھنے والے طلبہ، تاجر ،مزدور، پھیری والے اور دیگر افراد جن کی تعداد قریب پچاس ہے لاک ڈاون کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں اور اپنے گھروں کو واپس جانے کیلئے ترس رہے ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ ان کے پاس جو کھانے پینے کا سامان تھا وہ بھی ختم ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں وہ فاقہ کشی پر مجبور ہے جبکہ ان کے پاس موجود رقم بھی ختم ہونے کے قریب ہے ۔ انہوںنے کہا کہ ذہنی دبائو کے چلتے یہاںپر گرمی سے بھی ہم لوگوں کا بُرا حال ہوگیا ہے کیوں کہ کشمیر میں درجہ حرارت اس قدر زیادہ نہیں ہوتا جو یہاں پر ہے انہوںنے کہا کہ جن مکانوں میں وہ رہے ہیں ان کے مالکان انہیں کمرے خالی کرنے پر مجبور کررہے ہیں ۔سی این آئی کے مطابق فون پر درد بھری آواز میں ان میں سے کئی طلبہ نے کہا کہ یہاں کی سرکار اور متعلقہ حکام سے کئی بار اپیل کی کہ انہیں اپنے وطن واپس بھیج دیا جائے لیکن انہوںنے اس سلسلے میں کوئی قدم نہیں اُٹھایا اس کے علاوہ جموں کشمیر انتظامیہ کے متعلقہ ذمہ داروں سے بھی اپیل کی لیکن ان کی جانب سے بھی سرد مہری دکھائی گئی ۔ درماندہ کشمیریوں نے کہا کہ انہیں اپنے گھر واپس پہنچانے کیلئے اقدامات اُٹھائے جائیں اگرچہ انہیں وادی میں دو ماہ تک قرنطینہ مراکز میں رہنا پڑے گا وہ بھی برداشت کرسکتے ہیں لیکن اس جھلسادینے والی اور ناقابل برداشت گرمی میں ان کا ایک دن بھی مشکل سے کٹ جاتا ہے ۔ انہوں نے کشمیری عوام کے ساتھ ساتھ ایل جی انتظامیہ باالخصوص ڈویژنل کمشنر کشمیر سے مود بانہ اپیل کی ہے کہ وہ انہیں اپنے وطن واپس لانے کیلئے اقدامات اُٹھائیں تاکہ وہ ذہنی پریشانی سے نجات حاصل کرسکیں۔ دریں اثناء ہماچل پردیش کے دارالحکومت شملہ کے مڈل بازار واقع جامع مسجد میں 129 کشمیری مزدور پھنسے ہوئے ہیں۔ سی این آئی کے مطابق مزدوروں کا الزام ہے کہ کرفیو نافذ ہونے کو ایک مہینہ ہونے والا ہے ، لیکن انتظامیہ نے ان کی خیر خیریت نہیں لی۔ روزگار ٹھپ ہے اور روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں۔مزدوروں کا الزام ہے کہ انتظامیہ کے افسران اور پولیس کے لوگ مسجد میں ضرور آئے اور سماجی دوری پر عمل کرنے کو کہا گیا۔ لیکن راشن کے لئے نہیں پوچھا گیا۔ وہیں، ان مزدوروں کو راشن نہ دینے پر سی پی آئی ایم کے ایم ایل اے راکیش سنگھا ڈی سی آفس میں دھرنے پر بیٹھ گئے ہیں۔کشمیری مزدور نثار احمد، پرویز احمد اور فیاض احمد نے بتایا کہ وہ لوگ ہوٹلوں میں کھانا کھا رہے ہیں۔ مزدوروں کا کہنا ہے کہ یومیہ اجرت مل نہیں رہی ہے، روز ادھار میں کھانا کھا رہے ہیں۔ لیکن اب ہوٹل والے پیسوں کے لئے پریشان کر رہے ہیں۔ مزدوروں کی مانگ ہے کہ انہیں گھر جانے دیا جائے۔ گاڑی کا نظم نہ ہو تو انہیں پیدل ہی کشمیر جانے کی اجازت دی جائے۔اس بیچ سی پی آئی ایم کے رکن اسمبلی راکیش سنگھا ان مزدوروں کے پاس پہنچے اور حالات کا جائزہ لیا۔ سنگھا نے انتظامیہ پر سنگین سوال کھڑے کئے ہیں۔ سنگھا نے انتباہ دیا کہ اگر پیر کی صبح تک انہیں راشن نہیں دیا گیا تو وہ ڈی سی آفس کے باہر دھرنے پر بیٹھ جائیں گے۔ اسی ضمن میں وہ پیر کے روز ڈی سی دفتر میں دھرنے پر بیٹھ گئے ہیں۔وہیں، ایس ڈی ایم (شہری) نیرج چاندلا کا کہنا ہے کہ ان کی مدد کے لئے ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔ حکام راشن لے کر ان کے پاس گئے تھے لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ چار لوگوں کو ایک ساتھ راشن دیئے جانے کا التزام ہے، لیکن یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہر ایک کو الگ الگ راشن دیا جائے۔اس دوران معلوم ہوا ہے کہ گوامیں بھی سینکڑوں کشمیری پھنسے ہوئے ہیں جو وہاں پر سخت پریشان ہوچکے ہیں اور گرمی زیادہ ہونے کے نتیجے میں ان کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیںدوسری جانب جن مکانوں اور گھروں میں یہ لوگ رہے رہے ہیں ان کے مالکان کشمیریوں پر سخت دبائو ڈال رہے ہیںکہ وہ مکانوں اور کمروں کو فوری خالی کرو۔ دیں اثناء بیرون ریاستوں میں پھنسے ہوئے لوگوں نے شکایت کی ہے کہ جموں کشمیر انتظامیہ کی جانب سے جو مدد کیلئے فون نمبرات مشتہر کئے گئے ہیں وہ ہاتھی کے دانتوں کی مانند ہے کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ انہوں نے کہا کہ ان نمبرات پر فون لگتا ہی نہیں اور اگر بدقسمتی سے لگ بھی جائے تو فون اُٹھانے والوں کی طرف سے سرد مہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ آپ سے ہم خود یہ رابطہ کریں گے اور یہ کہہ کر فون کاٹ دیا جاتا ہے ۔

Comments are closed.