اروند سبرامنيم نے اسی سال جون میں نجی وجوہات کی بنا پرعہدہ چھوڑ دیا تھا، لیکن اس کے بعد انہوں نے اپنی کتاب میں اس فیصلے کو ملک کے لئے مہلک قراردیا ہے۔ انہوں نے اپنی اس کتاب ‘آف كاؤنسیل: دی چیلنجز آف دی مودی جیٹلی اکنامی‘ میں مودی حکومت کے اس فیصلے کے بارے میں لکھا ہے۔
انہوں نے لکھا "نوٹ کی منسوخی ایک بڑا، سفاکانہ، مالیاتی جھٹکا تھا- ایک ہی جھٹکے میں 86 فیصد کرنسی لین دین سے باہرہوگئی۔ واضح طور سے اس سے حقیقی جی ڈی ڈی کی ترقی متاثرہوئی ہے۔ نوٹ کی منسوخی سے پہلے7 سہ ماہیوں میں اوسط ترقی شرح 8 فیصد تھی جو نوٹ کی منسوخی کے بعد7 سہ ماہیوں میں گھٹ کر 6.8 فیصد رہ گئی”۔
وزیر اعظم نریندرمودی نے 8 نومبر 2016 کی رات 8 بجے قوم کے نام خصوصی ٹیلی ویژن خطاب میں اچانک 500 روپئےاورایک ہزار روپئے کے اس وقت جاری 500 روپئےاور1000 روپئے کے نوٹوں پرعام استعمال کے لئے پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا۔ اسی دن 12 بجےسے یہ فیصلہ نافذ کیا گیا تھا۔
سابق چیف اقتصادی مشیرنے اس کتاب میں لکھا ہے، جوعام طورپرلین دین میں موجود کرنسی اورجی ڈی پی متوازی چلتی ہے، لیکن نوٹ کی منسوخی کے بعد جہاں کرنسی کا گراف بالکل نیچے آگیا۔ وہیں جی ڈی ڈی کے گراف پر بہت کم اثر پڑا۔ ایسا اس لئے ہوا کیونکہ جی ڈی پی کے اعداد و شمار روایتی معیشت کی بنیاد پر تیارکئے جاتے ہیں۔
غیر رسمی شعبے (غیرمنظم) کی سرگرمیوں کی پیمائش کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ لہذا، روایتی شعبے کے اعداد و شمار کی بنیاد پر غیر روایتی شعبے کے لئے اندازً اعداد و شمار تیار کئے جاتے ہیں۔ عام حالات میں یہ طریقہ درست ہوسکتا ہے، لیکن نوٹ کی منسوخی کے بڑے جھٹکے کے بعد غیر منظم سیکٹر ہی متاثر ہوا ہے۔ اس طریقے سے ترقی کی شرح کے صحیح اعداد و شمار دستیاب نہیں ہوتے ۔
Comments are closed.