ویڈیو:جموں کشمیر بنک کو پبلک سیکٹر ادارہ قرار دئے جانے کے خلاف انجینئر رشید کا احتجاج

عوام سے ہوشیار ہوکر گورنر انتظامیہ کو اس طرح کے فیصلے واپس لینے کی زوردار اپیل

سرینگر26نومبر: عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ انجینئر رشید نے جموں کشمیر بنک کو ’’پبلک سیکٹر انڈر ٹیکنگ‘‘قرار دئے جانے کے سرکاری فیصؒ ے کے خلاف سرینگر میں ایک احتجاجی مظاہرے کی قیادت کی اور ریاستی اداروں کے خلاف جاری سازشوں کو بند نہ کئے جانے کے سنگین نتائج سے سرکار کو خبردار کیا۔بنک کے ہیڈکوارٹر کے باہر انجینئر رشید کی قیادت میں جمع مظاہرین نے کہا کہ وہ ریاست کے اس اہم معاشی ادارے کے ساتھ اظہار یکجہتی اور گونر کی مشاورتی کونسل کے فیصلے کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرنے کیلئے جمع ہوئے ہیں

Er Rasheed Hold Sit In Protest Outside Head Office J&K Bank In Srinagar.By Firdous Qadri

Posted by Tameel Irshad on Sunday, 25 November 2018

 

۔مظاہرین نے نہ صرف سرکاری فیصلے کے خلاف نعرہ بازی کی بلکہ انہوں نے ہاتھوں میں بینر اور پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے جن پر جموں کشمیر بنک کو پوری طرح ایک سرکاری ادارہ بنائے جانے کے فیصلے کو رد کرنے والے نعرے درج تھے۔اس موقعہ پر جمع نامہ نگاروں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انجینئر رشید نے کہا کہ گورنر ایس پی ملک کو جموں کشمیر بنک کی خود مختاری پر حملہ کرنے کا کوئی اخلاقی یا آئینی جواز نہیں ہے۔انہوں نے کہا’’جموں کشمیر بنک اپنی نوعیت کا ایک معتبر ادارہ ہے جسے پبلک سیکٹر میں لاکر نہ صرف اسکی خود مختاری کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے بلکہ خدشہ ہے کہ اسکا حشر ایس آر ٹی سی،ایس ایف سی،جے کے پی سی سی،ایچ ایم ٹی اور ان جیسے دیگر پبلک سیکٹر اداروں سے مختلف نہیں ہوگا‘‘۔انجینئر رشید نے کہا کہ بنک کے معاملات میں سرکاری مداخلت کے بڑھ جانے سے اسکا اعتبار ختم ہوجائے گا اور یہ سیاستدانوں اور بیوروکریٹوں کیلئے لونڈی کی طرح بن جائے گا۔عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ نے مزید کہا کہ اگر بنک کو ریاستی اسمبلی کو اپنی رپورٹ پیش کرنا پڑی تو اسکا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ یہ ادارہ سیاستدانوں اور بیروکریٹوں کے ماتحت ہوکر تباہ ہوجائے گا۔انجینئر رشید نے کہا کہ گورنر انتظامیہ کا یہ فیصلہ سیاسی بنیادوں پر لیا گیا ہے اور اسکا واحد مقصد ریاست کے اس اہم معاشی ادارے کی خود مختاری کو چھین لینا ہے۔انہوں نے بنک میں مبینہ طور چوردروازے سے بھرتیاں کرائے جانے کے گورنر کے بیان کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے بیانات سے در اصل گورنر ملک بنک پر قبضہ جمانے کا ماحول پیدا کرنا چاہتے تھے جس میں وہ کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔انجینئر رشید نے کہا کہ بنک کے سٹھ فی صد حصص سرکار کے پاس ہیں لیکن کیا گورنر صاحب اس بات کا جواب دینگے کہ کیا انہوں نے بنک کو پبلک سیکٹر قرار دینے کے فیصلے سے قبل بقیہ چالیس فی صد حصہ داروں کو اعتماد میں لیا ہے؟انہوں نے بنک کو ریاستی عوام کی میراث قرار دیتے ہوئے اسکی اعتباریت اور خود مختاری پر کسی بھی حملہ کو نا قابل قبول قرار دیا اور عوام اور سیاسی پارٹیوں سے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے گورنر انتظامیہ کو اپنا غیر آئینی اور بلا جواز فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرنے کی اپیل کی۔انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی عوام اپنے اس اہم ادارے کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کسی بھی طرح اجازت نہیں دے سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بنک کو آر ٹی آئی کے دائرے میں لائے جانے کے جہاں مثبت پہلو ہیں وہیں اسکے بعض منفی پہلو بھی ہیں لہٰذا یہ بات انتہائی لازمی ہے کہ اس قانون کو بنک کے حوالے سے اس انداز سے استعمال کیا جائے کہ اس سے جوابدہی کا ماحول بڑھے نہ کہ مزید مسائل پیدا ہوجائیں اور اس اہم ادارے کی اعتباریت کو نقصان پہنچے۔

Comments are closed.