بلدیاتی انتخابات: پہلے مرحلے کی پولنگ کل ، وادی کشمیر فوجی چھاونی میں تبدیل

سری نگر :جموں وکشمیر میں انتظامیہ کے مطابق چار مرحلوں پر مشتمل بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کی پولنگ کے لئے سیکورٹی سمیت دیگر تمام انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ 8 اکتوبر (سوموار) کو پہلے مرحلے میں میونسپل کارپوریشنوں، کونسلوں اور کمیٹیوں کے 422 حلقوں میں پولنگ ہونی ہے۔ پولنگ کا عمل صبح 7 بجے شروع ہوکر شام کے چار بجے تک جاری رہے گا۔ بلدیاتی انتخابات کے سبھی چار مرحلوں میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی گنتی 20 اکتوبر کو ہوگی۔ریاست میں 8 اکتوبر کو ان علاقوں میں تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے جن میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے تحت ووٹ ڈالے جارہے ہیں۔ اُن سرکاری ملازمین کو خصوصی کیجول لیو دینے کا اعلان کیا گیا ہے جنہیں اپنا ووٹ ڈالنے کے لئے دوسرے علاقوں میں جانا پڑے گا۔ تاہم انہیں ثبوت دینا ہوگا کہ انہوں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا ہے۔ صوبہ جموں میں جہاں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے زبردست جوش وخروش دیکھنے میں آرہا ہے، وہیں وادی کشمیر میں لوگ ان انتخابات سے بھاگتے ہوئے اور لاتعلق نظر آرہے ہیں۔وادی میں بلدیاتی انتخابات کے لئے قائم سبھی پولنگ مراکز کو حساس یا حساس ترین قرار دیا گیا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے لئے رائے دہندگان کو لبھانے کے لئے گذشتہ دو ہفتوں سے جاری انتخابی مہم اتوار کی صبح سات بجے اپنے اختتام پر پہنچی۔جہاں جموں میں انتخابی امیدواروں نے رائے دہندگان کو لبھانے کا ہر طریقہ استعمال کیا، وہیں وادی میں انتخابی میدان میں شامل امیدوار نہ تو روڑ شوز اور نہ کھلے میدانوں میں انتخابی جلسوں کا انعقاد کرسکے۔ وادی میں بیشتر لوگ اس قدر ان انتخابات سے لاتعلق ہیں کہ انہیں معلوم ہی نہیں ان کے حلقوں سے کون لوگ انتخابات لڑھ رہے ہیں۔ انتخابی امیدواروں نے مبینہ طور پر ہائی سیکورٹی زون والے علاقوں میں واقع سرکاری عمارتوں میں پناہ لے رکھی ہے۔ ذرائع نے بتایا ’جہاں انتخابی مہم کے دوران لوگ انتخابات سے لاتعلق نظر آرہے ہیں، وہیں سیاسی جماعتوں اور امیدواروں نے رائے دہندگان کو لبھانے کی سرگرمیاں اپنے پارٹی دفاتر، ڈاک بنگلوں اور دیگر سرکاری عمارتوں کی چار دیواریوں تک ہی محدود رکھیں‘۔ سرکاری ذرائع نے یو این آئی کو بتایا کہ محفوظ، پرامن اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لئے سیکورٹی سمیت تمام ضروری انتظامات مکمل کرلئے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا ’پہلے مرحلے میں 8 اکتوبر کو جہاں جہاں پولنگ ہونی ہے، وہاں سیکورٹی کے مثالی انتظامات کئے گئے ہیں‘۔ سیکورٹی ذرائع نے بتایا کہ محفوظ انتخابات کو یقینی بنانے کے لئے فورسز کی 400 اضافی کمپنیاں تعینات کی جارہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جنگجوو¿ں کے کسی بھی منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے وادی بھر میں تلاشیوں کا سلسلہ تیز کردیا گیا ہے۔ وادی میں جگہ جگہ ناکے بٹھائے گئے ہیں جہاں گاڑیوں اور ان میں سوار افراد کی تلاشی لی جارہی ہے۔ بتادیں کہ وادی میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کی ووٹنگ سے محض دو روز قبل نامعلوم اسلحہ برداروں نے جمعہ کو سری نگر کے گنجان آبادی والے حبہ کدل کے قر فلی محلہ میں نمودار ہوکر نیشنل کانفرنس کے دو کارکنوں کو ہلاک جبکہ تیسرے کو شدید طور پر زخمی کردیا۔ ان ہلاکتوں پر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ شہر کے بیچوں بیچ دن دہاڑے ہلاکتیں ہورہی ہیں، موجودہ گورنر انتظامیہ بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات کو کیسے تحفظ فراہم کرسکتی ہیں؟انتخابی کمیشن کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں جن 422 بلدیاتی حلقوں کو انتخابی عمل سے گذرنا ہے، ان کے لئے 1283 امیدوار میدان میں ہیں۔ 422 بلدیاتی حلقوں میں 247 حلقے جموں، 149 حلقے کشمیر اور 26 حلقے لداخ میں ہیں۔ جموں کے 247 حلقوں کے لئے ایک ہزار 10 ، کشمیر کے 149 حلقوں کے لئے محض 207 اور لداخ کے 26 حلقوں کے لئے 66 امیدوار میدان میں ہیں۔ انہوں نے بتایا ’بلدیاتی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ پہلی دفعہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے لئے الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں استعمال کی جارہی ہیں‘۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں وادی کے بلدیاتی حلقوں میں جو 207 امیدوار میدان میں ہیں، ان میں سے 69 امیدواروں کو پہلے ہی بلامقابلہ کامیاب قرار دیا جاچکا ہے۔ بتادیں کہ ریاست میں بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہورہے ہیں۔ ریاست میں اس سے قبل سنہ 2005 میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے تھے۔ ان میں بیلٹ پیپر کا استعمال کرکے ووٹ ڈالے گئے تھے۔ سنہ 2005 میں بننے والے بلدیاتی اداروں کی مدت سنہ 2010 میں ختم ہوئی تھی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ریاست کی دو بڑی علاقائی جماعتیں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی 8 اکتوبر سے شروع ہونے والے بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات کا بائیکاٹ کررہی ہیں۔ دونوں جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ مرکزی سرکار پہلے دفعہ 35 اے پر اپنا موقف واضح کرے اور پھر وہ کسی انتخابی عمل کا حصہ بنیں گی۔ قومی سطح کی دو جماعتوں سی پی آئی ایم اور بی ایس پی نے بھی ان انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ کشمیر کی علیحدگی پسند جماعتوں بالخصوص مشترکہ مزاحمتی قیادت اور جنگجو تنظیموں نے لوگوں کو ان انتخابات سے دور رہنے کے لئے کہا ہے۔ مزاحمتی قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے ریاست میں میونسپل اور پنچایتی انتخابات کے آغاز پر8 اکتوبر کو پورے جموںوکشمیر میںمکمل احتجاجی ہڑتال کی کال دی ہے۔ مزاحمتی قیادت نے 8 اکتوبرکو پورے جموں وکشمیر جبکہ بلدیاتی انتخابات کی باقی تاریخوں یعنی10 اکتوبر، 13 اکتوبر اور16 اکتوبر کو جن جن علاقوں میں میونسپل انتخابات ہو رہے ہیں اس دن اُن اُن علاقوں میں احتجاجی ہڑتال کرنے اور ان انتخابات سے عملاً مکمل طور لا تعلقی کا اظہار کرنے کی کال دی ہے۔ مزاحمتی قائدین نے الزام لگایا ہے کہ ان انتخابات کی آڑ میں یہاں پہلے سے ہی لاکھوں کی تعداد میں موجود فورسز میں مزید اضافہ کیا گیا ہے۔ریاست میں بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی، کانگریس اور پنتھرس پارٹی کے درمیان سہ طرفہ مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق علاقائی جماعتوں این سی اور پی ڈی پی کی بلدیاتی انتخابات سے دوری اور علیحدگی پسند جماعتوں کی طرف سے دی گئی ’لاتعلقی اختیار کرنے کی کال‘ کی وجہ سے اہلیان وادی کی ان انتخابات میں کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وادی کے 598 وارڈوں میں سے 172 وارڈوں میں کوئی امیدوار میدان میں نہیں ہے اور 190 وارڈوں میں امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہوئے ہیں۔ انتخابی کمیشن کے ذرائع نے بتایا کہ ریاست میں بلدیاتی حلقوں کی تعداد 1145 ہے جن کے لئے 2990 امیدوار قسمت آزمائی کررہے ہیں۔ 1145 حلقوں میں سے 244 حلقوں میں امیدواروں کو بلامقابلہ کامیاب قرار دیے جاچکے ہیں۔ ان میں سے 95 فیصد امیدواروں کو وادی کشمیر میں بلامقابلہ کامیاب قرار دیا جاچکا ہے۔ انتخابی کمیشن کے ذرائع نے بتایا کہ انتخابی دنگل میں زور آزمانے والے 2990 میں سے سب سے زیادہ 2137 جموں، 787 کشمیر اور 66 لداخ سے قسمت آزمائی کررہے ہیں۔ ریاست میں بلدیاتی انتخاب میں 16 لاکھ 97 ہزار 291 رجسٹرڈ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل قرار دیے گئے ہیں۔ وادی کے 598 وارڈوں میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 10 لاکھ 32 ہزار 498 ، جموں کے 521 وارڈوں میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 6 لاکھ 44 ہزار 568 اور لداخ کے 26 وارڈوں میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 20 ہزار 225 ہے۔ 244 بلامقابلہ کامیاب قرار دیے جاچکے امیدواروں میں سے 231 کا تعلق کشمیر جبکہ محض 13 کا تعلق جموں سے ہے۔ وادی کشمیر میں سب سے حساس مانے جانے والے جنوبی کشمیر پر نظر ڈالیں تو وہاں بلدیاتی حلقوں کی تعداد 133 ہے۔ ان میں سے صرف ایک حلقہ میں امیدواروں کی تعداد ایک سے زیادہ ہے۔ اس طرح سے 132 بلدیاتی حلقوں میں کوئی ووٹنگ نہیں ہوگی۔ ذرائع نے بتایا کہ جنوبی کشمیر کے 133 بلدیاتی حلقوں میں سے 85 میں کوئی امیدوار نہیں ہے، 47 حلقوں میں امیدواروں کو بلامقابلہ کامیاب قرار دیا جاچکا ہے جبکہ محض ایک حلقہ ایسا ہے جہاں ووٹنگ ہونی ہے۔ دریں اثنا ریاست کی گورنر انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ ریاست میں رواں ماہ چار مرحلوں میں منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے لئے سیکورٹی کے مثالی انتظامات کئے گئے ہیں۔ ریاست کے چیف سکریٹری بی وی آر سبھرامنیم نے 25 ستمبر کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ریاست میں بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات کے پرامن اور محفوظ انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے سیکورٹی فورسز کی 400 اضافی کمپنیاں تعینات کی جارہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’ان انتخابات کے لئے سیکورٹی فورسز کی 400 کمپنیاں تعینات کی جائیں گی۔ یہ یہاں پہلے سے موجود ریاستی پولیس اور سیکورٹی فورسز کے اضافی ہے۔ یہ تعداد انتخابات کرانے کے لئے کافی ہے۔ ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی انتخابات ہونے والے ہیں۔ وہاں بھی سیکورٹی فورسز کی ضرورت ہے۔ ہمیں تصور نہیں تھا کہ ہمیں 400 کمپنیاں فراہم کی جائیں گی‘۔ ریاستی پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے کہا کہ ریاست میں انتخابات کے لئے تمام تر تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی اور دیگر سیکورٹی فورسز نے وادی میں پرامن انتخابات کو یقینی بنانے کے لئے گذشتہ ایک ہفتے کے دوران جنگجوو¿ں کے 450 سے 500 معاونت کاروں کو گرفتار کیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان معاونت کاروں کو لوگوں اور انتخابی امیدواروں کو ڈرانے دھمکانے اور پنچایت گھروں کو آگ لگانے کا کام سونپا گیا تھا۔ سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات سے نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی دوری وادی¿ کشمیر میں اب تک ایک جیت کے لئے تشنہ بی جے پی کے لئے بیساکھی ثابت ہوئی ہے۔ بی جے پی کے مطابق اس کے کم از کم 70 امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہوچکے ہیں۔ کانگریس کے بلامقابلہ کامیاب ہونے والے امیدواروں کی تعداد محض 30 ہے۔ بی جے پی کے بلامقابلہ کامیاب ہونے والے بیشتر امیدوار جنوبی کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ مقامی جماعتوں کے بائیکاٹ سے بی جے پی کے امیدواروں کو بلامقابلہ کامیاب ہونے میں مدد ملی ہے۔ کانگریس کے ریاستی صدر غلام احمد میر کہتے ہیں ’کسی کا بلامقابلہ کامیاب ہونا، یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ یہ بڑے پیمانے کے انتخابات ہیں۔ کشمیر کے اندر قریب چھ سو سے زیادہ سیٹیں ہیں۔ اگر ہر پارٹی اٹھتی تو شاید سب کو (بی جے پی) کو یہ جگہ نہیں ملتی۔ چونکہ یہاں کی بنیادی وجودی جماعتیں بائیکاٹ پر چلی گئیں، کہیں جگہوں پر وہ مکمل طور پر بائیکاٹ پر ہیں، کہیں جگہوں پر ان کے پراکسی امیدوار کھڑے ہیں۔ ایسے میں بہت سے لوگوں کو بلامقابلہ کامیاب ہونے کا موقع ملا‘۔ یو این آئی

Comments are closed.