ہائے! وہ میرا محسن شمع صحافت

اک اور ستارہ دھندلکے کی نظر
” میں کس کے ہاتھ پے اپنا لہو تلاش کروں

تمام شہر نے پہنے ہیں دستانے

 

 

 

 

 

"تاکہ سند رہے "ہر منگلوارکو تعمیل ارشاد میں شائع ہونے والا کالم کون لکھے گا ؟ میں آج یعنی سوموار کو کالم نگارکے فون ۔مسیج اور ای میل۔کے ذریعے کالم کا منتظر ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ہر منگلوار کو تسلسل کے ساتھ پڑھنے والے قارئین بھی ہاتھ مٙل رہے ہوں گے کہ "تاکہ سند رہے "کالم جس میں کشمیریوں کا درد بھرا ہوتا تھا،جس میں نافذ شدہ کالے قوانین بشمول افسپا کے خاتمے کی رواداد ہوتی تھی اور رواں جدوجہد میں آئے روز قیمتی جانوں کی تلافی اور نشاندہی بدرجہ اتم موجود ہوا کرتی تھے ۔تعمیل ارشاد میں کیوں نہیں چھپا ہے ؟ غالباً یہ سوال ہر ذی حس فرد کو تڑپائے گا کہ وہ قوم کا غمخوار جو سفارتی سطح پر اپنے قوم کی نمائندگی کرتے تھے، وہ ادب نواز جس نے ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں کی قدردانی کرکے ان کو اپنے حقیقی مقام پر پہنچانے میں کلیدی رول ادا کیا اور کشمیری زبان کو زمینی سطح پر مستحکم بنانے کے لئے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کا لا یا ۔وہ شمع صحافت جس نے صحافتی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے بے باک صحافت کو پروان چڑھانے میں تاریخ ساز رول ادا کیااور حقیقی صحافت کے اس علمبردار نے اپنے آخری سفر میں بھی لبنس میں صحافت کی ہی ترجمانی کی اور اس حوالے سے۔ تاکہ سند رہے ۔ کے کالم میں ۔”لبنس میں پرنٹ اور سوشل میڈیا پر بات "کے عنوان کےتحت اپنی رائے کا برملا اظہار کیا ۔یہ کہنا بے بجا نہیں ہوگا کہ وہ "شمع صحافت "بذات خود ایک تحریک تھی ۔وہ زبان دان ہونے کے ساتھ ساتھ تجزیہ نگار اور نقاد تھے اور بیک وقت کئی زبانوں بشمول کشمیری ‘اردو اور انگریزی میں حالات حاضرہ کو قلمبند کرتے تھے اور زندگی کے ہر شعبے میں درپیش مسائل کو اجاگر کرنے میں سرگرم عمل رہتے تھے ۔راقم الحروف نے جب سے میدان صحافت میں قدم رکھا ہے، تب سے ڈاکٹر سید شجاعت بخاری کا نام سنا ہے لیکن ایک اعلیٰ سطح کا صحافی ہونے کی وجہ سے میری ان تک رسائی نہیں تھی۔ تاہم جب راقم نے کشمیر پریس سروس میڈیا گروپ میں شمولیت اختیار کی تب مجھے منجھے ہوئے صحافیوں بشمول ریاض مسرور کے ساتھ واسطہ پڑا لیکن ”شمع صحافت”تک سے دیرتک تعلقات استوار نہیں ہوپائے حالانکہ تعمیل ارشاد کے منتظمین بالخصوص راجہ محی الدین اور آکاش امین کے مراسم ”شمع صحافت” کے ساتھ کافی نزدیک تھے ۔بہرحال وقت گزرتاگیا اور راقم نے میدان صحافت میں کسی حد تک ایک منظم پلیٹ فارم کے ذریعے اپنی پہچان بنائی اورادارہ کی وساطت سے ادبی اور سماجی کانفرنسوں اور تقریبات میں جانے کا موقعہ نصیب ہوا اور بیشتر تقریبات میں ”شمع صحافت "سید سجاعت بخاری صاحب کو ایوان صدارت میں پایا ۔حق تو یہ ہے کہ دوری کے باوجود بھی ان کی شخصیت پر رشک آیا اور کئی مرتبہ علیک سلیک بھی ہوا لیکن تعلقات جوں کے توں تھے اور شجاعت صاحب کے متعلق گمان یہ تھا کہ ان میں انانیت موجود ہے لیکن یہ گمان اس وقت اک آن میں تبدیل ہوا جب مجھے ان کے ساتھ سفر کرنے کا موقعہ حاصل ہوا ۔عالمی سطح کی کانفرنس جو تھائی لینڈ کے دارلخلافہ بینکاک میں منعقد ہوئی جس میں ہم سے وہ ملے جن کامدتوں سے اشتیاق تھا ۔اس طویل سفر کے دوران دلی سے لیکر بینکاک تک قائد کارواں شجاعت بخاری کا جو رول رہا میں ذاتی طور اس حد تک متاثر ہواجس کا مجھے اندازہ نہیں تھا کیونکہ شجاعت صحاحب کئی اخباروں کے مدیر اعلیٰ ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح کی شخصیت ہیں لیکن اس کے باوجود جو رہبری اور جو سلوک انہوں نے جملہ ساتھیوں کے روا رکھا وہ بذات خود میرے لئے ایک قیمتی توشہ ہے حالانکہ راقم پہلی مرتبہ بیرونی ملک کی سیر پر تھا لیکن جس انداز سے اس شمع صحافت نے ہمت وحوصلہ افزائی کی، معلوم نہیں ہوا کہ ہم لوگ کسی اجنبی ملک میں مسافر ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس بات کا بچشم مشاہدہ ہوا کہ سید شجاعت بخاری صاحب نہ صرف ایک منجھے یوئے صحافی ہے بلکہ عالمی سطح پر ان کو منفرد اور ممتاز اعتباریت حاصل ہے اور یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ وادی کے اس درخشاں ستارے نے عالمی سطح پر اپنی قابلیت اور ذہانت کا سکہ جمادیا ہے۔ اس بے باک شخصیت کی قابلیت اور صحافت کا جو رعب راقم پر تاحال طاری تھا وہ محبت میں تبدیل ہوگیا اور اس سفر کے بعد سے شمع صحافت راقم کے لئے ایک استاد ‘رہبر اور قائد کی حیثیت اختیار کر گئے ۔لوگوں کی رائے اس ممتاز شخصیت کے بارے میں کیا کچھ ہو، لیکن حقیقت کی عینک سے دیکھا جائے تو خالصتاً ایک مسیحا ‘ انسان دوست اور محسن تھے۔ جس نے ایک لحظہ ولمحہ میں میرا گمان ہی بدل دیا ۔سفر کی واپسی کے بعدسید شجاعت بخاری صاحب اور راقم کے درمیان تعلقات استوار ہوئے کیونکہ شجاعت صاحب نے تعمیل ارشاد میں تسلسل کے ساتھ ہر منگلوار کالم لکھنا شروع کیا جوپورے ادارہ کے لئے باعث سعادت تھا اور میں ہر سوموار کواس عظیم و دانا شخصیت کے ساتھ رابطے میں رہتا تھااور بعد ازاں اس حد تک تلعلقات استوار ہوتے گئے کہ جب میرے چچا اس دار فانی رحلت کرگئے تو انہوں نے بیرون ملک ہونے کے باوجود میرے ساتھ اس طرح تعزیت اور یکجہتی کا اظہار کیا جس کا مجھے گمان ہی نہیں تھا ۔مجھے ہر سوموار اب تڑپا رہی ہے کہ ”تاکہ سند رہے "کے کالم کے حوالے بات کس کے ساتھ کروں ۔سفر کے بعد راقم کی امیدیں "شمع صحافت "کے ساتھ کافی بڑھ گئی تھیں اور یقین تھا کہ شحاعت صاحب میدان صحافت میں مجھے ایک راہی کی طرح راہ دکھا کر منزل کو پہنچانے میں رول نبھائیں گے لیکن یہ کیاں معلوم تھا کہ وہ اس مشن کو بھی ادھورا چھوڑ کر چلے جائیں گے ۔موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو رستگاری نہیں ہے۔ ان کے مرنے کے بعد سورج وچاند کی گردش باقی ہے اور معمولات زندگی رواں دواں ہیں۔لیکن ان کی موت سے بالخصوص صحافتی اور ادبی حلقوں میں ایک خلا پیدا ہوگیا ۔جس کو پُر کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے ۔۔۔میرا یہ سوال ہے کہ کس جرم کی پاداش میں میرے اس محسن ‘ کشمیریوں کے غمخوار ‘اپنوں اور پرائیوں کے ہمدرد کو قتل کیا گیا ؟ جبکہ یہ بات واضح ہے کہ شہیدسید شجاعت بخاری ہندوپاک کے درمیان بہتر تعلقات اور مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے خواہاں تھے ۔جو ان کی سفارتی کوششوں اورتحریرات سے عیاں ہوتا ہے ۔مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ منجھے ہوئے صحافی ایک سماجی کارکن بھی ہیں کیونکہ ان کے ہمعصر اور ایک معروف صحافی مقبول ساحل کے زریعے شجاعت صاحب کے اس دار فانی سے رحلت ہونےکے بعدمعلوم ہوا ۔فکشن رائٹرس گلڈ کے منعقدہ تعزیتی اجلا س میں مرحوم کے فرزند ارجمند اقبال ساحل نے اس عظیم انسان کی ہمدردی کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شجاعت صاحب نے مسیحائی کردار ادا کرکے مجھے والد محترم کی جدائی کا احساس تک نہ ہونے دیا بلکہ ایسی ہمدردی کی جس کا انہیں اندازہ نہ تھا ۔بہرحال ”شمع صحافت” کے کن کن صفات کو صفحہ قرطاس پر لانے کی کوشش کروں اس کےلئے مدت کثیر اور لفظوں کی وسعت کا ہونا ناگزیر ہے ۔”شہید شمع صحافت "کے کارنامے تاریخ کشمیر میں ہی نہیں بلکہ۔عالمی سطح کی تاریخ میں سنہرے حروف سے کنندہ ہیں ۔ہمارے دلوں میں ان کی یادیں تابندہ رہیں گی اور ان کا صحافتی ‘ادبی مشن ہمارے لئے بطور مشعل راہ ثابت ہوگا ۔۔

ِہر اک کا درد اسی آشفتہ سر میں تنہا تھا
وہ اک شخص جو سارے نگر میں تنہا تھا

Comments are closed.