پروف ریڈنگ، انسانیت کے علمبرداروں کیلئے لمحہ فکریہ

ناظم نذیر


عصر حاضر میں عالمی سطح پر افراتفری اور بد امنی کا ماحول بنا ہوا ہے ہر سو انسانیت کے اصولوں کی پامالی ہورہی ہے اور انسان ہی وحشت اور دہشت پیدا کرکے کمزوروں ، بے آسراؤں اور مظلوموں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔قتل وغارت گری اب روز کا معمول بن گیا ہے۔جہاں انسان کو درد دل کے واسطے پیدا کیا گیا تھا وہیں یہ ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بن گیا ہے۔انسان وحشی حیوانوں یا دوسرے خطرناک مخلوقات سے نہیں بلکہ انسان سے ہی ڈرتا ہے۔گردش ایام میں انسان ہر اعتبار سے پریشان حال ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سیریا،فلسطین یا کشمیر ہو جہاں انسانی حقوق کی پامالیاں عروج پر ہیں۔حد تو یہ ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی کرنے والے ہی اس رعیت کے حکمران ہیں اور اپنے لوگوں کو اپنانے کے بلند بانگ دعوے کررہے ہیں۔لیکن زمینی سطح پر انہی کی پشت پناہی سے ان کی فورسز انسانوں کا قتل عام کررہی ہے اورنہتے لوگوں کو موت کے آغوش میں پہنچانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔اپنے آقاؤں کی خوشنودی اور اپنے حقیر مفادات کے خاطر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔عظیم اور قیمتی جانیں تلف ہورہی ہیں۔گھروں کے گھر اجاڑ دئے جاتے ہیں۔عصمتیں لٹی جارہی ہیں۔ذی عزت شہریوں کو بے عزت کیا جارہا ہے۔سر عام لوگوں کو پیٹا جارہا ہے۔لوگ سکون اور آرام کھوئے ہیں۔نجات کی راہ کسی کو نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ اس حوالے سے جب فلسطینی مسلمانوں پر ہورہے ظلم وستم اور قتل غارت گری کی طرف نظر دوڑائی جارہی ہے۔تو درد دل رکھنے والے انسانوں کے رونگھٹے کھڑا ہوجاتے ہیں۔وہاں انسانوں کو مبینہ طور تہہ تیغ کیاجارہا ہے ،ماں کو قتل کرکے اس کے بچے کو اس کی چھاتی پر رکھ دیا جارہا ہے۔باپ کو اپنے بیٹے کے سامنے اور بیٹے کو اپنے باپ کے سامنے جاں سے مار دیا جاتا ہے جس سے انسانیت شرمسار ہے۔حالانکہ فلسطین میں قائم مسجد اقصٰی مسلمانوں کا قبلہ اول تھا اور مسجد اقصٰی پر اسرائیلوں کا قبضہ بلاجواز ہے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صدیوں سے رہائش پذیر مسلمانوں سے جینے کا حق چھینا جارہا ہے اور ان کو ملک بد ر کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہے اس طرح سے ان کو مارا جارہا ہے کہ ان کے جسم کے ٹکڑے کئے جارہے ہیں لیکن المیہ ہے کہ دنیا کا کوئی جمہوریت اور انسانیت کا دعویٰ کرنے والے ملک کے حکمران اْف تک بھی نہیں کرتے ہیں بلکہ خاموش تماشائی ہیں۔حد تو یہ ہے کہ مسلمان ممالک بھی نامعلوم وجوہات کی بناء پر زبان کھولنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ہیں۔حالانکہ ناحق قتل وغارت گری اور خون کی ارزانی پر ایمان و یقین کے سات�آاواز بلند کرنا اولین ذمہ داری ہے اور دین اسلام کے اصولوں کے تئیں اس ظلم و بربریت کیخلاف ان پر جہاد واجب ہوجاتا ہے اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ مسلمان جو با غیرت قوم گردانا جاتا ہے کبھی ایسا برداشت نہیں کرسکتا ہے۔جس طرح ترکی کے باغیرت ،انقلابی مزاج کے حامل حکمران اورانسانی دل رکھنے والے صدر رجب طیب اردوگان نے برما کے مسلمانوں کے ساتھ اخلاقی اور سفارتی ہمدردی کا بھر پور مظاہرہ کرکے دنیائے انسانیت کے حکمرانوں اور بالخصوص مسلمان حکمرانوں کیلئے سبق آموز رویہ اختیا ر کیا اور تاریخ میں صدر موصوف کا رول سہنری حروف سے لکھ دیا جائے اور قیامت کی صبح تک موصوف نے انسانی حقوق کی علم کو بلند کرکے ایک مثال قائم کردی۔برما میں مسلمانوں کی شرح آبادی اقلیت میں ہے اور اس مظلوم قو م پر ہورہے ظلم وبربریت کیخلاف ہر ایک مسلمان کا کیا بلکہ ہر انسان کو اس بلاجوا قتل وغارت گری کیخلاف آواز بلند کرنا امر لازم ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جمہوری دعوی ٰ کرنے والے اور اسلامی ممالک کے علمبرداردنیا کے مظلوم مسلمانوں بالخصوصفلسطین کے مسلمانوں کے ظلم و تشدد کیخلاف صدائے حق بلند کریں اور اس قتل وغارت گری پر روک لگانے کیلئے اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہاں مسلمانوں پر ہورہے ظلم تشدد کا خاتمہ ہو ۔

Comments are closed.