سرکاری اسپتالوں کی ابتر صورتحال سے مریض مایوس

محکمہ صحت کے دعوے بے معنی نیم طبی عملے کی کاروئیاں تشویشناک

سرینگر /29مارچ: طبی اداروں کی حالت بہتر بنانے بیماروں کو سہولیات بہم پہنچانے کے ضمن میں سرکار کے دعوئوں اور وعدئوں کا اثر زمینی سطح پر نہیں دکھائی دے رہا ہے ۔ بڑے اور چھوٹے سرکاری اسپتالوں کی حالت دن بدن بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے اور بیماروں کو پہلے سے زیادہ مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہاں تک کہ حاملہ خواتین کے ساتھ اسپتالوں میں ناشائستہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے ۔ کرسیاں تووہی ہیں افراد کو تبدیل کر کے طبی اداروں کی حالت کو تب تک بدلا نہیں جا سکتا جب تک ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کا ضمیر جاگ جائے گا اور وہ اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کریں ۔سی این آئی کے مطابق طبی اداروں کی صورت حال کو تبدیل کرنے بیماروں کو بہتر علاج و معالجہ فراہم کرنے ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کی ڈیٹیوں کو یقینی بنانے کیلئے محکمہ صحت اور سرکار نے پچھلے 3برسوں کے دوران سینکڑوں بار یقین دہانی کی کہ ایسے ڈاکٹروں کو نوکری سے بر خاست کیا جا ئیگاجو دور دراز علاقوں میں ڈیوٹی دینے سے انکار کریں گے ۔ کشمیر وادی میں جتنے بھی ہیلتھ اور پرائمری ہیلتھ سینٹر موجود ہیں کسی ایک کی حالت کو بہتر قرا ر نہیں دیا جا سکتا ہے ۔ ایسے سرکاری اسپتالوں کے دروازے بیماروں کیلئے برابر 12بجے تک بند رہتے ہیں اور دوپہر 12بجے کے بعد خاکروب یا درجہ چہارم کا کوئی ملازم ہی ان اسپتالوں کا دروازہ کھولتا ہے ۔ ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ دور دراز علاقوں کے رہائش پذیر لوگوں نے سینکڑوں دفعہ شفا خانوں میں ڈاکٹروں کی عدم دستیابی نیم طبعی عملے کی عدم موجودگی دوائیوں کی کمی مشینوں کا خراب ہونے کی شکایت درج تو کی مگر محکمہ صحت کے ذمہ داروں پر عامی شکایتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا اور حالات دن بدن خراب ہی ہوتے جا رہے ہیں ۔وادی کے مختلف علاقوں میں جتنے بھی سرکاری اسپتال قائم کئے گئے ہیں ان سے زبح خانے بہتر ہیں جہاں بھیڑ بکریوں کو پھر بھی تیز چھریوں سے زبح کر کے ان کا گوشت فروخت تو کیا جا رہا ہے اسکے برعکس سرکاری شفا خانے نیم طبی عملے کیلئے تجربہ گاہ اور ڈاکٹروں کیلئے روپیہ کمانے کی جگہیں بن گئی ہیں ۔ دور دراز علاقوں میں تعینات مرد ڈاکٹر لیڈی ڈاکٹر یا تو اپنی ڈیٹیوں پر جاتے ہی نہیں اگر جاتے بھی ہیں تو اسپتالوں سے فاصلے پر اپنے پرائیوٹ کلینک رکھتے ہیں جہاں وہ بیماروں کے جیب صاف کر نے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں ۔ ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ حاملہ خواتین کو اکثر و بیشتر لعل دید یا نرسنگ ہوموں کا رخ کرنا پڑتا ہے اور ہیلتھ سینٹروں اور پرائمری ہیلتھ سینٹروں میں تعینات لیڈی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انہیں وہ سہولیات دستیاب نہیں ہیں کہ وہ حاملہ خواتین کو زچگی کے وقت علاج کر سکیں جبکہ سرکار کا دعویٰ اس کے برعکس ہے ۔ سرکار اور محکمہ ہیلتھ کے مطابق شفاخانوں میں بیماروں کو سہولیات بہم پہنچانے کا ہر ممکن انتظام کیا گیا ہے دور دراز علاقوں کی حاملہ خواتین کو زچگی کے وقت انتہائی مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اپنے علاقوں میں جو اسپتال انہیں دستیاب ہیں ان سے ایسی خواتین کو کوئی سہولیت بہم نہیں پہنچتی ہے ۔ یہی حال بڑے اسپتالوں کا بھی ہے لاتعداد ڈاکٹر اور نیم طبعی عملے تعینات کرتے کے باوجود بیمار نالاں ہیں کہ انہیں بہتر علاج و معالجہ فراہم نہیں کیا جا رہا ہے ۔سرکاری اسپتالوں کی حالت تو انتظامیہ کے چند افراد کی ادلا بدلی سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے اسکے لئے ڈاکٹروں کو پہلے اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کرنا ہوگا روپیہ کمانے کی مشین بننے کے بجائے انہیں انسان اور انسانیت کی خدمت کرنے کاجذبہ پیدا ہو نا چاہئے ۔ محکمہ صحت کو زبانی جمع خرچ کرنے کے بجائے عملی اقدامات اٹھانے ہونگے ڈاکٹروں نیم طبعی عملے کی ڈیٹیوں کو یقینی بنانے کیلئے کار گر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے دوائیوں کی فراہمی اور دوسری ضروریات کو پورا کرنے کیلئے جو روایتی طریقہ اختیار کیا گیا ہے اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے بڑے اور چھوٹے سرکاری اسپتالوں کی انتظامیہ کو جوابدہ بنایا جائے تبھی شفاخانوں کی حالت کو بہتر بھی بنایا جا سکتا ہے اور بیماروں کو بہتر علاج و معالجہ بھی بہم پہنچایا جا سکتا ہے ۔

Comments are closed.