غیر ملکی سفارتکاروں کا کشمیر دورہ لاحاصل عمل ، حالات معمول پر ہیں تو تین سابق وزرائے اعلیٰ نظر بند کیوں ، سفارتکاروں سے کون ملیں یہ بھی بتادیجئے /غلام نبی آزاد

کشمیر کے متعلق فیصلے لینے کے بعد بین الاقوامی ممالک کا دباو مرکز پر بڑھ گیا جس وجہ سے غیر ملکی سفارتکاروں کے دورے ہو رہے ہیں /کپل سبل

سرینگر13 فروری//یو پی آئی // کانگریس سمیت ملک کی دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے غیر ملکی سفارتکاروں کے کشمیر دورے کو ہدفہ تنقید کا نشانہ بنایا۔ راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر نے کہاکہ ہمیں کشمیر جانے کیلئے سپریم کورٹ سے اجازت مانگنی پڑرہی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ بقول مرکزی حکومت اگر کشمیر میں حالات معمول پر ہیں تو تین سابق وزرائے اعلیٰ کی نظر بندی کا پھر کیا جواز ہے۔ انہوںنے کہاکہ پچھلے دورے کی طرح ہی اس بار بھی بھاجپا سے تعلق رکھنے والے افراد نے ہی سفارتکاروں سے ملاقات کی۔ سی پی آئی ایم کے جنرل سیکریٹری کے مطابق دوبار ہمیں کشمیر جانے سے روکا گیا تیسری دفعہ عدالتِ عظمیٰ کی مداخلت کے بعد کشمیر جانے کی ا جازت دی گئی ۔ انہوں نے کہاکہ مرکزی حکومت کشمیر کے بارے میں غلط بیانی سے کام لے رہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور کانگریس لیڈر کے مطابق کشمیر کے حوالے سے مرکزی حکومت پر بین الاقوامی دباو بڑھ گیا ہے اس لئے وہ سفارتکاروں کے دورے کو یقینی بنا رہی ہیں۔ خبر رساں ایجنسی یو پی آئی کے مطابق غیر ملکی سفارتکاروں کے کشمیر دورے پر اپوزیشن پارٹیوں نے مرکزی حکومت کو ایک دفعہ پھر ہدفہ تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ ملک کے ارکان پارلیمان کو کشمیر جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہیں جبکہ غیر ملکی سفارتکار وں کو آئے روز جموںوکشمیر کے دورے پر بھیجا جا رہا ہے۔ راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر غلام نبی آزاد نے کہاکہ جموںوکشمیر میں پچھلے 30برسوں سے ملی ٹینسی چلی تاہم اس دوران کھبی بھی غیر ملکی سفارتکاروں نے کشمیر جانے کی خواہش تک ظاہر نہیں کی تاہم جب سے مرکزی حکومت نے جموںوکشمیر کو حاصل خصوصی اختیارات کو منسوخ کیا غیر ملکی سفارتکار کشمیر جارہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مرکزی حکومت پر کشمیر کی موجودہ صورتحال پر بین الاقوامی برادری نے دباو ڈالا ہے۔ انہوںنے کہاکہ چونکہ مرکزی حکومت جموںوکشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہونے کے دعوے کر رہی ہیں لہذا میں اُن سے یہ سوال کرنا چاہتا ہے اگر واقعی میں حالات معمول پر ہیں تو تین سابق وزرائے اعلیٰ کی نظر بندی کا کیا جواز ہے۔ انہوںنے کہاکہ فاروق عبدا ﷲجیسے قد آور لیڈر ، عمر عبدا ﷲجیسے نوجوان قائد اور محبوبہ مفتی کو مسلسل پی ایس اے کے تحت نظر بند رکھنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ کشمیر وادی میں حالات اب بھی معمول پر نہیں ہیں۔ انہوںنے کہاکہ جموںوکشمیر کی صورتحال کے متعلق مرکزی حکومت غلط بیانی سے کام لے رہی ہیں حالانکہ وہاں کے حالات کے بارے میں سب کو بخوبی علمیت ہے۔ انہوںنے کہاکہ ابھی بھی مواصلاتی نظام کو پوری طرح سے بحال نہیں کیا گیا، برانڈ بینڈ سہولیات کشمیر وادی میں مسلسل منقطع ہے جس وجہ سے لوگوں خاص کر تاجروں اور نامہ نگاروں کو مشکلات کا سامنا کرناپڑرہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ جس طرح سے جنوری کے مہینے میں وادی کشمیر کے دورے پر آئے غیر ملکی سفارتکاروں کو بھاجپا سے تعلق رکھنے والے افراد نے ملاقات کی اسی طرح اس بار بھی بھارتیہ جنتاپارٹی نے سفارتکاروں سے ملنے والے افراد کی ایک لسٹ تیار کی اور وہی سفارتکاروں سے ملاقات کر سکے۔ انہوںنے کہاکہ وہی فوجی آفیسران سفارتکاروں سے ملاقی ہو رہے ہیں جنہوںنے پچھلی دفعہ ملاقات کی اور اس پر سوالات اُٹھانا لازمی ہے۔ انہوںنے کہاکہ عام شہریوں ، تاجروں ، وکلاءاور میڈیا سے وابستہ نمائندوں کو سفارتکاروں سے ملنے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی ۔ ادھر سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کپل سبل نے کہاکہ کشمیر کے متعلق مرکزی حکومت نے جو فیصلے لئے اُس پر عالمی برادری نے بھارت کی مرکزی حکومت پر دباو ڈالا ۔ انہوں نے کہاکہ مرکزی حکومت دباو میں کام کر رہی ہیں اور اسی لئے بین الاقوامی سفارتکاروں کو کشمیر جانے کی بار بار اجازت دی جارہی ہیں۔ کپل سبل کا مزید کہنا تھا کہ تین سابق وزرائے اعلیٰ گھروں میں نظر بند کئے گئے ہیں اُن کی رہائی کے متعلق حکومت کچھ نہیں کر رہی جبکہ لوگوں میں ڈر اور خوف بھی ہے۔ علاوہ ازیں سی پی آئی ایم کے جنرل سیکریٹری سیتا رام یچوری نے بھی غیر ملکی سفارتکاروں کے کشمیر دورے کو لاحاصل عمل قرار دیتے ہوئے کہاکہ ملک کے ارکان پارلیمان کو کشمیر جانے سے روکا جارہا ہے تاہم غیر ملکی سفارتکاروں کو مرکزی حکومت جانے کی اجازت دے رہی ہیں۔ انہوںنے کہاکہ دو بار مجھے کشمیر جانے سے روکا گیا پھر عدالتِ عظمیٰ کی مداخلت کے بعد کشمیر جانے کی اجازت دی گئی ۔ یچوری کے مطابق وادی کشمیر میں حالات پوری طرح سے معمول پر نہیں آئے ہیں اور اس کا بین ثبوت تین سابق وزرائے اعلیٰ کی مسلسل نظر بندی ہے۔انہوںنے کہاکہ مرکزی حکومت دعویٰ کر رہی ہیں کہ جموںوکشمیر میں حالات معمول پر ہیں اگر واقعی اُن کا دعویٰ صحیح تو تین سابق وزرائے اعلیٰ کی مسلسل نظر بندی کا کیا جواز ہے۔

Comments are closed.