بیماروں کو ہر طرح کی سہولیت بہم پہنچانے کے انتظامیہ کے دعوئے کھوکھلے اور من گھڑت ثابت
سرینگر/24دسمبر /سی این آئی/ وادی کشمیر میں درجہ حرارت نقط انجماد سے نیچے چلے جانے کے باوجود قائم کئے گئے سرکاری اسپتالوںمیں بیماروں اور ان کے تیمارداروں کیلئے گرمی کے انتظامات نہ ہونے کے باعث بیماروں اور تیماردارو ں کو شدید ذہنی پریشانیوں کا سامنا کرناپڑرہا ہے ۔ شفاخانوںمیں بیماروں کو ہر طرح کی سہولیت بہم پہنچانے کے انتظامیہ کے دعوئے کھوکھلے اور من گھڑت ثابت ہو رہے ہیں۔ سرینگر کے چند بڑے اسپتالوںمیں اگر چہ ہیٹنگ سسٹم دستیاب ہے تاہم برقی رو منقطع ہو جانے کے ساتھ ہی بیماروں کو گرمی کے بجائے سرد ہوائوں کا سامنا کرناپڑرہا ہے اور بیمار بیڈوں پر تڑپنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق طبی سہولیات کا فقدان کشمیر وادی میں پہلے ہی پایا جاتا تھا سرکاری اسپتالوں میں تعینات ڈاکٹر اور نیم طبی عملہ زیادہ تر نجی کلینکوں ، پرائیوٹ اسپتالوں ، نرسنگ ہوموں اور لبارٹریوں پر اپنی خدمات انجام دے کر روپیہ کمانے کی مشین تو بن گئے تھے تاہم جاڑے کا موسم شروع ہونے کے ساتھ ہی وادی کشمیر میں قائم کئے گئے چھوٹے بڑے سرکاری اسپتال بیماروں کیلئے وبال جان بن گئے ہیں اور ان اسپتالوںمیں داخل ہونے والے بیماروں کو یخ بستہ سرد ہوائوں کا سامنا کرناپڑرہا ہے جس کے نتیجے میں ان کی بیماریان مزید بڑھ جاتی ہیں اور صحت یاب ہونے کے بجائے انہیں قبرستانوںمیں پہنچانے کی نوبت آجاتی ہے۔ کشمیر وادی میں اکتوبر کے آخری ہفتے سے سردیاں شروع ہو جاتی ہیں اور سرکاری اسپتالوں میں بیماروں کو گرمی دستیاب رکھنے کیلئے سرکار اور اسپتالوں کی انتظامیہ کی جانب سے بڑے بڑے دعوئے اور وعدئے کئے جاتے ہیں کہ نہ صرف بیماروں کو حیات بخش ادویات فراہم کرنے ، جراحی کرانے اور دوسری سہولیات بہم پہنچانے کیلئے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں بلکہ انتظامیہ یہ بھی دعوئے اور وعدئے کر تی ہیں کہ بیماروں کو سرکاری اسپتالوںمیں مفت کھانا بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ تاہم زمینی صورتحال کچھ اور ہے وادی میں جاڑے کا موسم شروع ہونے کے ساتھ ہی تمام ضلع ، تحصیل صدر مقامات پر قائم کئے گئے ڈسٹرکٹ ، سب ڈسٹرکٹ اسپتالوںمیں بیماروں کو گرمی دستیاب رکھنے کیلئے کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے اور برقی رو برقرار رکھنے پر سرینگر/24دسمبر /سی این آئی/ وادی کشمیر میں درجہ حرارت نقط انجماد سے نیچے چلے جانے کے باوجود قائم کئے گئے سرکاری اسپتالوںمیں بیماروں اور ان کے تیمارداروں کیلئے گرمی کے انتظامات نہ ہونے کے باعث بیماروں اور تیماردارو ں کو شدید ذہنی پریشانیوں کا سامنا کرناپڑرہا ہے ۔ شفاخانوںمیں بیماروں کو ہر طرح کی سہولیت بہم پہنچانے کے انتظامیہ کے دعوئے کھوکھلے اور من گھڑت ثابت ہو رہے ہیں۔ سرینگر کے چند بڑے اسپتالوںمیں اگر چہ ہیٹنگ سسٹم دستیاب ہے تاہم برقی رو منقطع ہو جانے کے ساتھ ہی بیماروں کو گرمی کے بجائے سرد ہوائوں کا سامنا کرناپڑرہا ہے اور بیمار بیڈوں پر تڑپنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق طبی سہولیات کا فقدان کشمیر وادی میں پہلے ہی پایا جاتا تھا سرکاری اسپتالوں میں تعینات ڈاکٹر اور نیم طبی عملہ زیادہ تر نجی کلینکوں ، پرائیوٹ اسپتالوں ، نرسنگ ہوموں اور لبارٹریوں پر اپنی خدمات انجام دے کر روپیہ کمانے کی مشین تو بن گئے تھے تاہم جاڑے کا موسم شروع ہونے کے ساتھ ہی وادی کشمیر میں قائم کئے گئے چھوٹے بڑے سرکاری اسپتال بیماروں کیلئے وبال جان بن گئے ہیں اور ان اسپتالوںمیں داخل ہونے والے بیماروں کو یخ بستہ سرد ہوائوں کا سامنا کرناپڑرہا ہے جس کے نتیجے میں ان کی بیماریان مزید بڑھ جاتی ہیں اور صحت یاب ہونے کے بجائے انہیں قبرستانوںمیں پہنچانے کی نوبت آجاتی ہے۔ کشمیر وادی میں اکتوبر کے آخری ہفتے سے سردیاں شروع ہو جاتی ہیں اور سرکاری اسپتالوں میں بیماروں کو گرمی دستیاب رکھنے کیلئے سرکار اور اسپتالوں کی انتظامیہ کی جانب سے بڑے بڑے دعوئے اور وعدئے کئے جاتے ہیں کہ نہ صرف بیماروں کو حیات بخش ادویات فراہم کرنے ، جراحی کرانے اور دوسری سہولیات بہم پہنچانے کیلئے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں بلکہ انتظامیہ یہ بھی دعوئے اور وعدئے کر تی ہیں کہ بیماروں کو سرکاری اسپتالوںمیں مفت کھانا بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ تاہم زمینی صورتحال کچھ اور ہے وادی میں جاڑے کا موسم شروع ہونے کے ساتھ ہی تمام ضلع ، تحصیل صدر مقامات پر قائم کئے گئے ڈسٹرکٹ ، سب ڈسٹرکٹ اسپتالوںمیں بیماروں کو گرمی دستیاب رکھنے کیلئے کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے اور برقی رو برقرار رکھنے پر ہی اکتفا کیا جار ہا ہے۔ اگر چہ وادی کے ہر اسپتال میں انتظامیہ کی جانب سے جنریٹر ، سولر لائٹس دستیاب رکھے گئے ہیں تاہم اکثر و بیشتر اسپتالوںمیں نصب کئے گئے جنریٹر بیکارپڑے ہیں اور ان کی مرمت کیلئے یا تو اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں یا پھر ایندھن کے کمی کی باعث اور فنڈس دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ان جنریٹروں کو بھی استعمال میں نہیں لایا جا رہا ہے۔وادی کشمیر میںقائم کئے گئے سرکاری اسپتا ل شفا خانے کم اور زبح خانے زیادہ بن گئے ہیںجہاں بیماروں کا پیٹ تو چاک کیا جاتا ہے لیکن جراحی کا سامان ڈاکٹر اور نیم طبی عملہ جسم میں ہی رکھ کر اسے دوبارہ جراحی کرانے پر مجبور کردیتے ہیں۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ وادی کے دور دراز علاقوںمیں سرکار نے جن شفا خانوں کو قائم کیا ہے وہاں نہ تو علاج ومعالجہ کے بہتر سہولیات دستیاب ہیں ٹیسٹ کرانے کی بات ہی نہیں مشینیں زنگ آلودہ ہو گئی ہیں ان مشینوں کو چلانے والے دستیاب نہیں ، گرمی بیماروں کو فراہم کرنے کے بارے میں ان اسپتالوں کی انتظامیہ نے کھبی سوچا ہی نہیں اگر چہ وادی کے چند بڑے اسپتالوںمیں ہیٹنگ سسٹم نصب کیا گیا ہے تاہم برقی رو منقطع ہو جانے کے بعد کنکریٹ کی یہ عمارتیں برف بنانے والی فیکٹریوں میں تبدیل ہو کر رہ جاتی ہیں جس کے نتیجے میں ان اسپتالوںمیں داخل کئے جانے والے بیمار اور ان کے تیماردار یا تو کانگڑیاں استعمال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا ان بیماروں کو بیڈوں پر چیخنا چلانا پڑتا ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے وادی سے شائع ہونے والے اخباروںمیں شہ سرخیوں کے ساتھ یہ خبریں شائع ہو رہی ہیں کہ سرکاری اسپتالوںمیں بیماروں کو گرمی پہنچانے کیلئے انتظامیہ کی جانب سے اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں تاہم محکمہ ہیلتھ کے سربراہ کے کانوں تک جوں نہیں رینگتی ہیں اور وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں اور عوامی حلقوں کا یہ ماننا ہے جب ان ہی شفاخانوںمیں بیماروں کو غیر معیاری ادویات ، انجکشن فراہم کئے گئے ، رشوت کی بنیاد پر ڈاکٹروں کو تعینات کیا گیا اور ایسے افراد کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جار ہی ہے تو بیماروں کو گرمی پہنچانے کے بارے میں سرکار اور محکمہ ہیلتھ سوچنے پر بھی مجبور نہیں ہو جاتا ہے ۔
Comments are closed.