ویڈیو: کشمیر میں ہندوستانی فوج کی آمد کے 71 سال مکمل ہونے پر مکمل ہڑتال
سری نگر ، وادی کشمیر میں ہندوستانی فوج کی آمد کے 71 سال مکمل ہونے پر ہفتہ کو مکمل ہڑتال کی گئی۔ مشترکہ مزاحمتی قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے ہڑتال کی کال دی تھی۔
https://www.facebook.com/TameelIrshadOfficial/videos/260745354642848/
مزاحمتی قائدین نے چند روز قبل ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ 27 اکتوبر کو جموںوکشمیر کے عوام احتجاجی ہڑتال کرکے اس دن کو ’یوم سیاہ‘ اور ’مقبوضہ دن‘ کے طور پر مناکر اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کریں گے جبکہ بیرون کشمیر دنیا کے مختلف خطوں اور ممالک میںمقیم آر پار کشمیری اس دن خصوصی پروگراموں کا اہتمام کرکے مسئلہ کشمیر کی سنگینی اور کشمیری عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق اس کے حل پر زور دینے کے ساتھ ساتھ کشمیر میں مظالم اور قتل عام کے خلاف احتجاج کریں گے کیونکہ اسی دن 1947 ءمیں حکومت ہند نے کشمیر پر اپنا قبضہ جمانے کے لئے فوج اور فورسز کو یہاں اتارا اور تب سے لیکر آج تک اپنے جابرانہ قبضے کو دوام بخشنے کے لئے فوج اور فورسز نہ صرف یہاں نہتے کشمیریوں کے قتل عام میں مصروف ہے بلکہ طاقت کے بل پر ہمارے جملہ بنیادی انسانی اور مذہبی حقوق کو سلب کرلیا گیا ہے اور فورسز اپنے کو حاصل لامحدود اختیارات اور کالے قوانین کے سبب یہاں کشمیریوں کی نسل کشی میںلگی ہے ۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق گرمائی دارالحکومت سری نگراور وادی کے دیگر قصبہ جات و تحصیل ہیڈکوارٹروں میں ہفتہ کو دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہی۔ تعلیمی ادارے بند رہے جبکہ سرکاری ونجی دفاتر بشمول بینکوں میں معمول کا کام کاج بری طرح متاثر رہا۔ ہڑتال کے دوران احتجاجی مظاہروں کے خدشے کے پیش نظر کشمیر انتظامیہ نے پائین شہر کے نوہٹہ پولیس تھانہ کے تحت آنے والے علاقوں میں کرفیو جیسی پابندیوں کا اطلاق ہفتہ کو مسلسل دوسرے دن بھی جاری رکھا۔ نوہٹہ میں واقع چھ صدی پرانی جامع مسجد کے دروازے بدستور مقفل رکھے گئے ہیں۔ اس تاریخی جامع مسجد میں جمعہ کو پابندیوں کے باعث مسلسل تیسرے جمعہ کو بھی نماز جمعہ کا اجتماع نہیں ہوسکا۔ وادی میں ریل خدمات مسلسل چھٹے دن بھی معطل رکھی گئیں۔ وادی میں ریل خدمات 22 اکتوبر کو کولگام میں 7 عام شہریو ں اور 3 مقامی جنگجوو¿ںکی ہلاکت کے پیش نظر معطل رکھی گئی تھیں، تاہم تب سے لیکر اب تک مسلح تصادموں اور ہڑتالوں کا سلسلہ جاری رہنے کی وجہ سے ریل خدمات کو بدستور معطل رکھا گیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 71 برس قبل آج ہی کے دن 27 اکتوبر کو ہندوستانی فوج ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر ائرپورٹ پر اتری تھی اور مبینہ قبائلی حملہ آوروں جنہیں مبینہ طور پر پاکستان کی پشت پنائی حاصل تھی، کے خلاف لڑی تھی۔ جموں وکشمیر کے اُس وقت کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے قبائلی حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومت ہند سے فوجی امداد کی درخواست کی تھی جو حکومت ہند نے الحاق کی دستاویز پر دستخط کے ساتھ ہی پوری کی تھی۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے 26 اکتوبر کو الحاق کی دستاویز پر دستخط کئے تھے اور ہندوستان کی طرف سے اپنی فوجیں 27 اکتوبر کو سری نگر میں تاری گئی تھیں۔ کشمیری مزاحمتی لیڈران اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں اور ہر سال 27 اکتوبر کو سری نگر میں ہندوستانی فوج اتارنے کے خلاف ہڑتال کی کادل دیتے ہیں۔ ریاست کی سرمائی دارالحکومت جموں اور خطہ کے دیگر کچھ اضلاع میں 26 اکتوبر کو ’ویلے دیوس (یوم الحاق) ‘ کے طور پر منایا گیا۔ جموں میں بی جے پی اور دیگر کچھ جماعتوں اور تنظیموں نے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ’ویلے دیوس‘ کو اسی جوش و جذبے سے منائیں گے جس طرح مذہبی تہوار مناتے ہیں۔ بھارتی فوج 27 اکتوبر کو ’انفینٹری ڈے‘ کے طور پر مناتی ہے۔ مسٹر گیلانی، میرواعظ اور یاسین ملک کا کہنا ہے کہ ایک تو محققین نے اس الحاق کے وقوع پذیر ہونے پر ہی کئی اہم سوالات اور اعتراضات اٹھائے ہیں اور دوئم مہاراجہ کو اس طرح کا الحاق کرنے کا لوگوں کی طرف سے کوئی منڈیٹ ہی حاصل نہیں تھا۔ ایک فردواحد کو آخر کس نے یہ حق اور اختیار دیا تھا کہ وہ لاکھوں انسانوں کے مستقبل کا فیصلہ از خود کرتا اور وہ بھی اس وقت، جب اس کے خلاف بغاوت ہوچکی تھی اور وہ اپنا سنگھاسن چھوڑ کر سری نگر سے جموں کی طرف بھاگ گیا تھا۔ ہفتہ کو وادی کے سبھی دس اضلاع سے غیرمعمولی ہڑتال کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ ہڑتال کے دوران جہاں کاروباری سرگرمیاں ٹھپ رہیں، وہیں سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہیں۔ یہاں تک کہ جموں وکشمیر اسٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی بسیں بھی سڑکوں سے غائب رہیں۔ تعلیمی ادارے بند رہے جبکہ سرکاری دفاتر میں معمول کا کام کاج بری طرح متاثر رہا۔ انتظامیہ نے ہڑتال کے دوران احتجاجی مظاہروں کے خدشے کے پیش نظر پائین شہر کے نوہٹہ علاقہ میں پابندیوں کا اطلاق ہفتہ کو دوسرے دن بھی جاری رکھا۔ یو این آئی کے ایک نامہ نگار جنہوں نے ہفتہ کی صبح پائین شہر کے مختلف حصوں کا دورہ کیا، نے بتایا کہ تاریخی جامع مسجد کے دروازوں کو بدستور مقفل رکھا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے اردگرد سینکڑوں کی تعداد میں سیکورٹی فورس اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔ سری نگر کے جن علاقوں کو پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا گیا ، میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب رہا۔ تاہم سیول لائنز میں اکادکا گاڑیاں چلتی ہوئی نظر آئیں۔ سرکاری دفاتراور بینکوں میں معمول کا کام کاج متاثر رہا۔ دریں اثنا جنوبی کشمیر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق وادی میں حالیہ عام شہریوں اور جنگجوو¿ں کی ہلاکت کے خلاف اور 27 اکتوبر کے پیش نظر تمام قصبوں اور تحصیل ہیڈکوارٹروں میں ہفتہ کو مسلسل چھٹے دن بھی ہڑتال رہی۔ ہڑتال کے دوران دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہی۔ تاہم جنوبی کشمیر سے گذرنے والی سری نگر جموں قومی شاہراہ پر گاڑیوں کی آمدورفت معمول کے مطابق جاری رہی۔ اطلاعات کے مطابق ہڑتال کی وجہ سے جنوبی کشمیر کے سرکاری دفاتروں میں ملازمین کی حاضری بہت کم رہی جبکہ بیشتر تعلیمی ادارے بند رہے۔ شمالی کشمیر سے موصولہ ایک رپورٹ کے مطابق ضلع بارہمولہ میں دو مختلف مقامات پر 4 جنگجوو¿ں کی ہلاکت کے خلاف اور 27 اکتوبر کے پیش نظر ضلع کے مختلف حصوں بالخصوص سوپور میں ہفتہ کو مسلسل تیسرے دن بھی مکمل ہڑتال کی گئی۔ ہڑتال کے دوران دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہی۔ شمالی کشمیر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق قصبہ بارہمولہ کے بشمول سبھی قصبہ جات میں ہفتہ کو ہڑتال کی وجہ سے معمول کی زندگی متاثر رہی۔ سڑکوں پر ٹریفک کی نقل وحمل معطل رہی جبکہ دکانیں اور تجارتی ادارے بند رہے۔ شمالی کشمیر کے بارہمولہ اور ایپل ٹاون سوپور میں سیکورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں کی اضافی نفری کو تعینات کیا گیا تھا۔ ایسی ہی اطلاعات وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام اور گاندربل سے بھی موصول ہوئیں۔ دریں اثنا وادی میں ریل خدمات مسلسل چھٹے دن بھی معطل رکھی گئیں۔ وادی میں ریل خدمات 22 اکتوبر کو کولگام میں 7 عام شہریو ں اور 3 مقامی جنگجوو¿ںکی ہلاکت کے پیش نظر معطل رکھی گئی تھیں، تاہم تب سے لیکر اب تک مسلح تصادموں اور ہڑتالوں کا سلسلہ جاری رہنے کی وجہ سے ریل خدمات کو بدستور معطل رکھا گیا۔ محکمہ ریلوے کے ایک عہدیدار نے یو این آئی کو بتایا ’ہم نے سیکورٹی وجوہات کی بناءپر ریل خدمات کو آج (ہفتہ کے روز) بھی معطل رکھا ہے‘۔ انہوں نے بتایا کہ سری نگر سے براستہ جنوبی کشمیر جموں خطہ کے بانہال تک کوئی ریل گاڑی نہیں چلے گی۔ اسی طرح سری نگر اور بارہمولہ کے درمیان بھی کوئی ریل گاڑی نہیں چلے گی۔ مذکورہ عہدیدار نے بتایا ’ہمیں گذشتہ شام ریاستی پولیس کی طرف سے ایک تازہ ایڈوائزری موصول ہوئی جس میں ریل خدمات کو ہفتہ کے روز بھی احتیاطی طور پر معطل رکھنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ ہم نے اس ایڈوائزری پر عمل درآمد کرتے ہوئے ریل خدمات کو آج مسلسل چھٹے دن بھی معطل رکھنے کا فیصلہ لیا۔ پولیس کی طرف سے گرین سگنل ملنے پر ریل خدمات کو بحال کیا جائے گا‘۔ انہوں نے بتایا کہ ریل خدمات کی معطلی کا فیصلہ ریل گاڑیوں کے ذریعے سفر کرنے والے مسافروں اور ریلوے املاک کو نقصان سے بچانے کے لئے اٹھایا گیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ماضی میں احتجاجی مظاہروں کے دوران ریلوے املاک کو بڑے پیمانے کا نقصان پہنچایا گیا۔ وادی میں سال 2016 میں حزب المجاہدین کے معروف کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر ریل خدمات کو قریب چھ مہینوں تک معطل رکھا گیا تھا۔ بتادیں کہ لارو کولگام میں 21 اکتوبر کو مسلح تصادم کے مقام پر ایک پراسرار دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 7 عام شہری جاں بحق ہوئے۔ پراسرار دھماکے سے قبل مسلح تصادم میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے جیش محمد سے وابستہ 3 مقامی جنگجو مارے گئے تھے۔21 اکتوبر کے بعد وادی میں مختلف مقامات بالخصوص نوگام سری نگر اور بارہمولہ میں مسلح تصادم ہوئے جن میں متعدد جنگجو مارے گئے۔ یو اےن آئی
Comments are closed.