وادی کشمیر میں آئے روز کی تصادم آرائیوں ،قتل وغارت گری اور افراتفری سے حالات نے سنگین رخ اختیار کیا ہے۔جس سے یہاں کے لوگ عدم تحفظ کے شکار ہوئے گذشتہ تین دہائیوں سے اس طرح کے پُرتناو حالات کا سلسلہ جاری ہے ۔اس دوران ہزاروں کی جانیں تلف ہوئے ،بے شمار گھر اجڑ گئے اور ہزاروں کی تعداد میں مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بالخصوص نوجوان لاپتہ ہوئے ۔متاثرین سراپا احتجاج ہیں لیکن کوئی پُرساں حال نہیں ۔بلکہ انکوائری اور تحقیقات کا ہر واقعہ کے بعد ڈول پیٹا جارہاہے اب تک یہ تحقیقات "کھودا پہاڑ نکلا چوہا "کے مترادف سامنے آئے ۔نہ ہی کسی قاتل کو سزا ملی ۔نہ مقتول کے لواحقین کو انصاف ملا ۔برعکس اس کے متاثر کنبوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے ان کو مختلف کیسوں میں ملوث بتایا گیا ہے جہاں حالات اس طرح کے ہوں تو وہاں کےلوگوں کا جینا ان کے لئے باعث عذاب بنتا ہے ۔یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ گذشتہ دنوں جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام میں جس طرح کی صورتحال پیدا ہوئی وہ ہر ایک کےلئے چشم کشا ہے۔جانیں تلف ہونے پرلوگ مشتعل ہوئے ،مشترکہ حریت قیادت نے ریاست گیر ہڑتال کی کال دی ۔اس کال پر من وعن لوگوں نے عمل کی اور دوسرے روز لوگوں،حریت قائدین وٹریڈ یونین اور سیاسی جماعتوں کے لیڈران نے لالچوک کی طرف بطور احتجاج مارچ کرنے کی کوشش کی ۔کوشش ناکام بنادی گئی تاہم اس احتجاجی عمل کی میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے کافی تشہیر ہوئی ۔جبکہ پاکستان کی سیاسی اور حکمران جماعتوں نے بھی پیش آئے ان دلدوز واقعات جن میں انسانی جانیں زیاں ہوئیں پروائے ویلا اور سخت افسوس کا اظہار کیا اتنا ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے عام۔شہریوں کے جاں بحق ہونے کو بدقسمتی سے تعبیر کیا اور ان کے لواحقین کے ساتھ ہمدردی جتاتے ہوئے 5لاکھ روپےفی کس بطور ریلیف دینے کا اعلان بھی کیا ۔ان ہمدردیوں کے بعدبہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں جن۔کا معقول جواب ان۔ہمدردی جتانے والوں میں کسی کے پاس نہیں ہے ۔کیونکہ یہ ہمدردی ان متاثرین کےلئے زخموں پر مرہم نہیں بلکہ نمک پاشی ہے جن کے لخت جگر گولیوں یا دھماکوں یا ٹئیر گیس شلوں سے چھلنی ہوکرموت کے آغوش میں چلے گئے ۔اپنے والدین اور دیگر لواحقین کو داغ مفارقت دیکر ان کو ہمیشہ کےلئے اُداسی میں ڈال دیاہے ۔یہ بچے جن والدین کے خوابوں کی تعبیر ہوتے ہیں جن کے بڑھاپے کے سہارے ہوتے ہیں ان کا درد 5لاکھ روپے دینے ،احتجاج اور وائے ویلا کرنے سے کم نہیں ہوگا یہ وقتی دل بہلائی کے ذرایعے ہیں جبکہ کوئی اس ضرب شدید کا مرہم۔نہیں کرسکتا ہے جانتا وہی ہے جس کے شریر کا کوئی جُز جھلس جاتا ہے اور وہی درد محسوس کرتا ہے ۔ان امدادی یا راحتی تدابیر کا اس وقت تک کوئی معنی ومدعا نہیں ہے جب تک نہ بنیادی محرکات اور مسئلہ کی طرف توجہ مبذول کی جائے اِس وقت کے حالات اور بالخصوص انسانیت اس بات کا تقاضا کررہے ہیں کہ تمام اختلافات اور نفرتوں کو یکطرف چھوڑ کر حقائق کو سامنے لانے کےلئے کمر کس لیا جائے تاکہ افہام و تفہیم کے ساتھ مسئلہ کا بامعنی اور پائیدار حل تلا ش کیا جاسکے۔اب تین دہائیوں کے دوران بندوق اور طاقت سے دونوں سمت آزمایا گیا لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکا سوا ئے جنگ وجدل ،افراتفری اور قیمی جانوں کا اتلاف ۔اس حوالے سے ہندوپاک کے حکمران برابر کے ذمہ دار ہیں۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ممالک کے حکمران بیان بازی ،زبانی ہمدردی اور ایک دوسر ے کے ساتھ الجھنے کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرکے بامعنی مذاکرات کا آغاز کریں اور کشمیری نمائندوں کو بات چیت کا حصہ بنا کر پائیدار حل نکلا جائے تاکہ بر صغیر میں پھیلی اس بد امنی اور افراتفری کا خاتمہ ممکن ہوسکے
Sign in
Sign in
Recover your password.
A password will be e-mailed to you.
Comments are closed.