تعلیمی اداروں کو بند رکھنا آخری آپشن ،ہم روشن مستقبل کے محافظ اور ضمانتدار

حکومتی اپروچ مایوس کن

4کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ،لیکن نتیجہ بھوک ہڑتال ،پولیس طاقت ،16ستمبر ڈیڈ لائن:عبد القیوم وانی

شوکت ساحل

سرینگر:: جموں وکشمیر ٹیچرس جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے بھوک ہڑتال پر بیٹھے ایس ایس اے اساتذہ کے تئیں حکومتی اپروچ کو مایوس کن اور تاخیری حربوں سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ڈی پی ،بھاجپا حکومت اور گور نر انتظامیہ نے اب تک اُنکے جائز مطالبات کو حل کرنے کےلئے 4کمیٹیاں تشکیل دیں ،لیکن چار ماہ گزر جانے کے باوجود قوم کے معماروں کے مسائل حل نہیں کئے گئے اور نہ ہی سنجیدہ اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔

مذکورہ کمیٹی کے صدر عبدالقیوم وانی نے اساتذہ کے مطالبات پورے کرنے کےلئے 16ستمبر کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے عندیہ دیا کہ اگر سرکار نے پھر بھی41ہزار اساتذہ کے جائز مطالبات پورے نہیں کئے ،تو احتجاج میں مزید شدت لائی جائیگی جبکہ ریاست کے تمام تعلیمی اداروں کو مکمل طور پر مجبوراً بند کرنے کا آپشن بھی موجود ہے ۔

جموں وکشمیر ٹیچرس جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے صدر نے تعمیل ارشاد ملٹی میڈیا گروپ کے ساتھ خصوصی گفتگو کے دوران کہا کہ سرینگر میں 11 اور جموں میں14روز سے ایس ایس اے کے تحت رہبر تعلیم اساتذہ ،ہیڈ ٹیچرس اور رمسا ماسٹرس غیر معینہ عرصے کی بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں ،لیکن مسائل کےلئے حل کےلئے سابقہ ریاستی حکومت کی طرح گور نر انتظامیہ بھی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ رواں برس کے ماہ اپریل سے اساتذہ سڑکوں پر سرا پا احتجاج ہے لیکن سر کار کی کان پر جوں تک نہیں رینگتی ہے ۔عبدالقیوم وانی نے کہا کہ بھوک ہڑتال پر بیٹھے اساتذہ کی صرف2مانگیں ہیں ، ایس ایس اے کے تحت رہبر تعلیم اساتذہ ،ہیڈ ٹیچرس اور رمسا ماسٹرس کے حق میں ساتواں پے کمیشن لاگو کیا جائے اور ان اساتذہ کی تنخواہوں کو اسٹیٹ سیکٹر کے ساتھ منسلک کیا جائے ۔

ان کا کہناتھا کہ ماہ اپریل2018میں اُس وقت کی پی ڈی پی ،بھاجپا مخلوط حکومت نے ساتواں پے کمیشن لاگو کیا ،لیکن بد قسمتی سے حکومت نے قوم کا مستقبل سنوارنے والے معماروں کو ہی اس سہولیت سے محروم رکھا گیا ۔ان کا کہناتھا کہ سرکار کے اس فیصلے کے خلاف جموںوکشمیر ٹیچرس جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے آواز بلند کی ،جسکے بعد اُس وقت کی ریاستی حکومت نے سید الطاف بخاری اور چودھری ذولفقار علی کی سربراہی میں الگ الگ 2کمیٹیاں تشکیل دیں ،لیکن ان کمیٹیوں کی جانب سے کوئی بھی رپورٹ سرکار کو پیش نہیں ہوئی،جسکی وجہ سے ہمارے جائز مطالبات التواءمیں پڑ گئے ۔انہوں نے کہا کہ اس کے بعد اساتذہ اپنے جائز حق کی خاطر سڑکوں پر نکل آئے لیکن انصاف کے بدلے میں ہم پرپولیس طاقت کا استعمال کیا گیا ۔

عبدالقیوم نے کہا کہ اس کے بعد اُس وقت کی حکومت کے ساتھ مفاہمتی عمل کے تحت مذاکرات ہوئے ،سرکار نے یقین دہانی کرائی ،جو سراب ثابت ہوئی ۔عبدالقیوم وانی نے مزید بتایا ’ 41ہزار اساتذہ کے جائز مطالبات کو ریاست میں گور نر راج نافذ ہونے کے بعد گورنر انتظامیہ کے سامنے رکھا گیا ،لیکن گور نر انتظامیہ نے بھی اب تک 2کمیٹیاں جس میں چیف سیکر یٹری کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ،لیکن نتیجہ ان دونوں کمیٹیوں کا سب کے سامنے ہے ‘۔

ان کا کہناتھا ’اساتذہ کے قوم کے معمار ہیں اور قوم کے معماروں کو سڑکوں پر نکلنے کا کوئی شوق نہیں ہے اور نہ ہی یہ ہمارا مشغلہ ہے ‘۔انہوں نے کہا کہ ریاستی گورنر کے مشیر خورشید احمد گنائی کی جانب سے خوش آئندہ بیان سامنے آیا ،لیکن بدقسمتی سے گورنر انتظامیہ نے بھی ابھی تک اساتذہ کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔انہوں نے کہا ’ اساتذہ مخاصمت نہیں مفاہمت چاہتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے جائز مطالبات مفاہمت کے ذریعے حل کئے جائیں ‘۔عبدالقیوم وانی نے کہا کہ ساتویں پے کمیشن کو ریاست میں لاگو کرنے سے قبل ایس ایس اے کے تحت رہبر تعلیم اساتذہ ،ہیڈ ٹیچرس اور رمسا ماسٹرس کو چھٹے پے کمیشن کے تحت تمام سرکاری مراعات مل رہی تھیں ،لیکن ساتواں پے کمیشن لاگو ہونے کے بعد 41ہزار اساتذہ کو اس سہولیت سے محروم رکھا گیا ،کیوں ؟۔

انہوں نے کہا کہ یہ اساتذہ کی تنخواہیں روکنے کے حربے ہیں جسے کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جائیگا ۔ان کا کہناتھا کہ ایس ایس اے اساتذہ کی تنخواہیں مرکزی وزارت برائے انسانی فروغ ووسائل کی جانب سے واگزار ہوتی ہے اور تنخواہیں چھ ،چھ ماہ بعد واگزار کی جاتی ہیں اور ہمارا مطالبہ ہے کہ ان اساتذہ کی تنخواہیں مذکورہ وزارت سے ’ڈی ۔لنک ‘ کرکے اسٹیٹ سیکٹر کےساتھ منسلک کی جائیں ۔

انہوں نے کہا کہ گور نر انتظامیہ فوری طور پر ایس ایس اے اساتذہ کے حق میں ساتویں پے کمیشن کو واگزار کرے ،بلے ہی اس کا اطلاق ماہ اکتو بر2018سے ہو ،ہمیں اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ،لیکن سرکار کوئی سنجیدگی تو دکھا ئے ۔ان کا کہناتھا کہ اساتذہ کے حق میں سماج کے ہر ایک طبقہ ہائی فکر نے آواز بلند کی خواہ وہ تاجر ہو،سیول سوسائٹی ہو ،مین اسٹریم اور مزاحمتی جماعتیں ہو،مذہبی جماعتیں ہو،یا ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ہو ،غرض یہ کہ سماج کے ہر ایک طبقے نے ہمارے مطالبات کو جائز ٹھہرا یااور ہمیں اپنا تعاﺅن دیا ۔

ان کا کہناتھا کہ ریاستی سرکاراساتذہ کے حق میں 1.43کروڑ روپے بطور تنخواہ واگزار کرتی ہے ،ساتویں پے کمیشن لاگو کرنے سے سرکار کو مزید25کروڑ روپے واگزار کرنے ہونگے ،یہ معاملہ خودبخود حل ہوجائیگا ۔ایک سوال کے جواب میں عبدالقیوم وانی نے کہا کہ غیر معینہ عرصے کی بھوک ہڑتال تب تک جاری رہے گی جب تک سرکار ہمارے جائز مطالبات پورے نہیں کرتی اور 16ستمبر سرینگر اور جموں میں شدید احتجاجی مظاہرے کئے جائیں اور راج بھون کا گھیراﺅ بھی کیا جائیگا ۔ان کا کہناتھا کہ اگر اسکے باوجود سرکار نے ہمارے مطالبات پورے نہیں کئے ،تو احتجاجی مظاہروں شدت لائی جائیگی ،جسکی ساری زمہ داری سرکار پر عائد ہوگی ۔

عبد القیوم نے ایک اور سوال کے جوا ب میں کہا ’ابھی ہم نے تعلیمی اداروں کو بھوک ہڑتال اور احتجاجی پروگرام سے مستثنیٰ رکھا ہے ،کیونکہ ہم اپنے ہی بچوں کا مستقبل تاریک بننے کے حق میں نہیں ہےں ،لیکن اگر سرکار نے ہمیں مجبور کیا تو ہم جموں وکشمیر کے تمام تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا فیصلہ بھی لے سکتے ہیں ،کیونکہ یہ ہمارے پاس آخری آپشن ہے ،اب بال سرکار کے کوٹ میں ہے ‘۔ان کا کہناتھا کہ اساتذہ کبھی بھی بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ نہیں کرسکتے ،کیونکہ ہم روشن مستقبل کے محافظ اور ضمانتدارہیں ۔

Comments are closed.