صحافی کی گرفتاری پر صحافتی برادری برہم

سرینگر : ماہانہ انگریزی رسالے کے اسسٹنٹ ایڈیٹر آصف سلطان کی گرفتاری پر صحافتی برادری نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ گرفتاری صحافی پر لگائے گئے الزامات کو منظر عام پر لایا جائے .

کشمیر ایڈیٹرز گلڈ نے اس ضمن میں ایک بیان جاری کیا گیا ،جس میں انہوں نے کہا کہ اگرقانون ساز اسمبلی کو معطل رکھا جاسکتا ہے لیکن آزادی رائے کو معطل نہیں کیا جاسکتا .

صحافی آصف سلطان کی گرفتاری پر طلب کئے گئے ہنگامی اجلاس میں کشمیر میں صحافیوں کو درپیش مشکلات ومسائل پر غور وخوض کیا گیا .

نظربند کشمیری صحافی آصف سلطان کے خلاف عائد کئے گئے الزامات کو بے بنیا د قراردیتے ہوئے کہاہے کہ پولیس کا بیان غیر واضح اور مبہم ہے جس پر یقین نہیں کیاجاسکتا۔ ۔

اجلاس کے بعد گلڈ نے ایک بیان میں کہا کہ اخبارات کو روزانہ کی بنیاد پر نوٹسز جاری کئے جارہے ہیں اور ان سے اپنے سورسزیعنی (ذرائع) ظاہر کرنے کا مطالبہ کیا جارہا جس کا مطالبہ ہنگامی صورتحال کے دوران بھی نہیں کیا گیاتھا۔

بیان میں کہاگیا کہ حال ہی میں ایک کشمیر ی صحافی آصف سلطان کو گرفتار کیاگیا اور اسکی گرفتاری کے چھ دن بعد اس کے خلاف مقدمہ درج کیاگیا ۔

بیان میں پولیس سے اس کے خلاف عائد کئے گئے الزامات منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیاگیا ۔ ایڈیٹرز گلڈ نے واضح کیاکہ صحافیوں کو اپنے سورسز یعنی (ذرائع )ظاہر کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا اور اسے دنیا بھر میں غیر قانونی سمجھا جاتا ہے ۔

ادھر بروڈ کاسٹ اینڈ ملٹی میڈیا جرنلسٹ ایسوسی ایشن (بی ایم جے اے ) نے مطالبہ کیا ہے کہ صحافی آصف سلطان پر لگائے گئے الزامات کو ظاہر کیا جائے .

مذکورہ ایسوسی ایشن کے ترجمان نے بتایا کہ ڈاٹا جمع کرنا صحافیوں کا کام ہے اور صحافی کے لیپ ٹاپ سے مواد کو پانا اور پھر پولیس کا یہ کہنا کہ صحافی کے لیپ ٹاپ سے قابل اعتراض مواد پایا اور اس بنیاد پر صحافی پر الزامات عائد کرکے اُسے قید میں رکھنا نا قابل قبول ہے .

ترجمان نے کہا کہ کسی بھی صحافی کو اپنا ذرائع ظاہر کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ جمہوری نظام میں صحافی کو یہ حق حاصل کہ وہ اپنے ذرائع کو ظاہر نہیں کرسکتا ہے .

یاد رہے کہ ‘کشمیر نریٹر ‘ماہانہ انگریزی رسالے کے اسسٹنٹ ایڈیٹر آصف سلطان کو گزشتہ دنوں اپنی رہائش گاہ واقع بٹہ مالوسے گرفتار کیا گیا .اپسے پولیس نے پوچھ تاچھ کےلئے حراست میں لیا تھا ،تاہم ابھی تک اُسکی رہائی عمل میں نہیں لائی گئی ،جس پر صحافتی برادری برہمی کا اظہار کررہی ہے .

Comments are closed.