سرینگر ( کے پی ایس)::مشترکہ مزاحمتی قیادت کے احتجاجی پروگرام کے تحت ریاستی تشخص، جغرافیائی ہیئت اورکشمیری ثقافت کے تحفظ کے حق میں جمعہ کو پیر پنچال کے آر پار جلسے ،جلوس اور ریلیاں برآمد ہوئیں ،جس دوران یک زبان ہو کر یہ عہد کیا گیا کہ جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کے خلاف ہر ایک ساز ش کو خون بہا کر ناکام بنایا جائیگا ۔میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے احتجاجی مظاہروں کی قیادت کے دوران واضح کیا کہ اگر سپریم کورٹ آف انڈیا کی جانب سے اس ضمن میں عوام کے مفادات کے منافی فیصلہ آتا ہے تو اس کیخلاف ہمہ گیر احتجاجی تحریک شروع کی جائیگی۔کشمیر نیوز نیٹ ورک کے مطابق مشترکہ مزاحمتی قیادت کے پروگرام پر عمل کرتے ہوئے جمعہ کو بعد دوپہر پیر پنچال کے آر پار دفعہ35اے کے حق میں احتجاجی مطاہرے کئے اور جلسے ،جلوس اور ریلیاں برآمد کی گئیں ۔اس سلسلے میں ملی تفصیلات کے مطابق نماز جمعہ کے بعد مشترکہ مزاحمتی قیادت کے احتجاجی پروگرام کی پیروی میں میرواعظ کی قیادت میں جامع مسجد سے ایک احتجاجی جلوس نکالا گیا جس دوران دفعہ 35-A کا ہر سطح پر دفاع اور تحفظ کا اعادہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ6 اگست کو اگر بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے اس ضمن میں کشمیری عوام کے مفادات کے منافی فیصلہ آتا ہے تو اس کیخلاف ہمہ گیر احتجاجی تحریک شروع کی جائیگی۔ میرواعظ عمر فاروق نے دفعہ 35-A کے حوالے سے جموںوکشمیر کے ہر مکتب فکر سے وابستہ افراد کی جانب سے یک زبان ہوکر صدائے احتجاج بلند کرنے کے عمل کو رواں تحریک مزاحمت اور کشمیری عوام کے مفادات کے تئیں لوگوں کی مکمل یکسوئی اور وعدہ بند کا واضح اظہار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس مسئلہ پر جس طرح تحریک نواز جماعتوں کے ساتھ ساتھ ہر طبقے سے وابستہ لوگوں چاہےں وہ تاجر ہو ں یا ٹرانسپورٹر ، مزدور ہو یا ملازم ، طالب علم ہو یا سول سوسائٹی غرض ہر فرد نے آگے آکر صدائے احتجاج بلند کرکے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے وہ اس قوم کی تحریک کے تئیں سنجیدگی اور اس حساس معاملے پر فکری یکسوئی کو ظاہر کرتی ہے ۔مرکزی جامع مسجد سرینگر میں نماز جمعہ سے قبل ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے حریت چیرمین نے ایک بار پھر واضح کیا کہ 6 اگست کو اگر بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے 35-A کے حوالے سے کوئی ایسا فیصلہ آتا ہے جو کشمیری عوام کے مفادات کے منافی ہو یا مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت و ہیئت یا جموںوکشمیر کی آبادی ڈیمو گرافی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوئی کوشش کی گئی تو اس کے ردعمل میں ہمہ گیر احتجاجی تحریک چھیڑ دی جائیگی۔انہو ں نے کہا کہ مشترکہ مزاحمتی قیادت کی جانب سے اس ضمن میں ایک منظم اور مرتب پروگرام پہلے سے دیا جاچکا ہے اور لوگوں کو چاہئے کہ وہ صرف جے آر ایل کے پروگرام پر من و عنعمل کریں۔انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام اپنا سب کچھ داﺅ پر لگا سکتے ہیں لیکن کشمیر کی متنازعہ حیثیت اور ہیئت کو تبدیل کرنے کی کسی بھی کوشش کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے ۔میرواعظ نے کپوارہ اور سوپور میں شہید کئے گئے چار عسکریت پسندوں کو شاندار الفاظ میںخراج عقیدت ادا کرتے ہوئے کہا گیا کہ طاقت اور تشدد کے بل پر ہماری آواز کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ہمارے نوجوانوںکو چن چن کر شہید کیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام کو مارنے سے اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ہماری تحریک کمزور ہوگی یا ہماری آواز دب جائیگی تو وہ شدید غلط فہمی میں مبتلا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایک عظیم مقصد کے حصول کیلئے پیش کی جارہی ہر شہادت ہمارے عزم کو مضوط کرتی ہے ۔اس دوران مشترکہ مزاحمتی قیادت کے اعلان شدہ پروگرام پر عمل پیرا ہوتے ہوئے لبریشن فرنٹ کے قائدین و اراکین نے لال چوک میں دو مقامات پر پروقار احتجاجی مظاہرے منعقد کئے۔ جموں کشمیر میں نافذ اسٹیٹ سبجکٹ قانون کی مجوزہ منسوخی کے خلاف لبریشن فرنٹ چیئرمین محمد یاسین ملک کی سربراہی میں لال چوک بنڈ پر قائم مسجد بلال سے متصل ایک زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں زندگی کے کئی شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے والہانہ شرکت کی ۔یاسین ملککے علاوہ اس احتجاج میںفرنٹ قائدین مشتاق اجمل،میر محمد زمان ،بشیر احمد کشمیری اور دوسرے لوگ شریک ہوئے۔ اسی طرح کا ایک اور احتجاجی مظاہرہ بڈشاہ چوک لال چوک کے نزدیک بھی منعقد ہوا جس میں فرنٹ قائدین ایڈوکیٹ بشیر احمد بٹ، شوکت احمد بخشی، نور محمد کلوال، شیخ عبدالرشید، جاوید احمد زرگر،محمد صدیق شاہ، مشتاق احمد خان ،غلام محمد ڈار ،معراج الدین پرے، امتیاز احمد،محمد رمضان اور محمد حنیف وغیرہ نے شرکت کی اور جموں کشمیر میں نافذ اسٹیٹ سبجکٹ قانون کی منسوخی یا اس کے ساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ کے خلاف پرامن احتجاج کیا۔اس احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے یاسین ملک نے کہا کہ اسٹیٹ سبجکٹ قانون اور اس کا تحفظ کشمیریوں کےلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور اس قانون ک منسوخی یا اس میں کسی بھی قسم کی ترمیم کوئی بھی کشمیری خاموش تماشائی بنا نہیں بیٹھ سکتا۔انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں مشترکہ مزاحمتی قیادت نے پہلے ہی ۵ اور ۶ اگست کےلئے مکمل اور ہمہ گیر ہڑتال کی کال دے رکھی ہے اور ان ایام پر ہر کشمیری اپنے گھر میں بیٹھ کر اس احتجاج میں بھرپور حصہ لےگا۔لبریشن فرنٹ چیئرمین نے کہا کہ اگر ۶ اگست کے روز بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیریوں کی خواہشات، احساسات اور عزت و شناخت کے خلاف کوئی فیصلہ صادر کیا تو پورا کشمیر سڑکوں پر آکر ایک بھرپور عوامی ایجی ٹیشن بپا کرنے پر مجبور ہوگا اور ہم اس قانون اور اپنی شناخت و خصوصی حیثیت کے دفاع کےلئے اپنا لہو بہانے تک سے دریغ نہیں کریں گے۔فرنٹ چیئرمین نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ اس قانونی عرضی جس کو آر ایس ایس کی پشت پناہی والی ایک این جی او نے دائر کررکھا ہے کو ایک بار پھر ۶ اگست کے روز سن رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کی پشت پناہی والے بھارتی حکمران لگاتار جموں کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی سازشیں رچا رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی سوچ سے متاثرہ بھارتی قیادت نے‘ جموں کشمیر میں اپنے گماشتوں کی بھرپور مدد سے ‘ اس سرزمین میں بھی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کاہمہ رخی پروگرام بنا رکھا ہے۔ ان سازشیوں نے اب کی بار اس معاملے کو بھارتی سپریم کورٹ میں دائر کردیا ہے اور سپریم کورٹ نے بھی اس مقدمے کوسننے کی حامی بھری ہے‘ حالانکہ کئی قانون دانوں کے نزدیک سپریم کورٹ کو پہلے ہی اس کو سننے سے انکار کردینا چاہئے تھا کیونکہ ماضی میں اسی سپریم کورٹ نے کئی بار ۵۳ اے‘ کیس پر فیصلے صادر کرکھے ہیں۔ فرنٹ چیئرمین نے کہا کہ بھارت جمو ں کشمیر کو اپنی نوآبادی سمجھتا ہے اور یہاں کے لوگوں کی مزاحمت کو دبانے کےلئے کوشان ہے اور ۵۳ اے کی آڑ میں اِسٹیٹ سبجیکٹ قانون کو ہٹانے کی کوشش بھی اسی کا حصہ ہے۔ انہوںنے کہا کہ ہم اپنے لوگوں کی مشکلات سے بخوبی واقف ہیں اور اپنے لوگوں کو مذید مشکلات میں نہیں ڈالنا چاہتے لیکن جب خاص طور پر قومی و ملی سطح پر زندگی اور موت اور وجود و عدم وجود کا مسئلہ درپیش ہوجاتا ہے تو کمزور اور چھوٹی اقوام کے پاس پامردی کے ساتھ مزاحمت کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہتا۔ ےاسےن ملک نے کہا کہ یہ بھارت اور اسکے کشمیری گماشتے ہی ہیں جو آئے روز خاص طور پر پچھلے تین برس سے ‘نت نئے بکھیڑے کھڑا کرکے کشمیر میں ماحول کو تباہ کرنے پر بضد نظر آتے ہیں۔ نت نئے مسائل کھڑے کرنے سے ان کا مقصد اپنی کشمیر دشمنی کو ظاہر کرناہوتا ہے تاکہ کشمیریوں کو زیادہ سے زیادہ تکالیف میں مبتلا کیا جاسکے۔ےاسےن ملک نے کہا کہ ۵۳ اے معاملے کو اچھالنے کا مقصد بھی کشمیریو ں کی عزت کو زک پہنچانا، اس سرزمین کی انفرادیت کو زک پہنچانا، کشمیریوں کو زیادہ سے زیادہ تکلیف میں مبتلا کرنااور اس سرزمین پر آبادی کے تناسب کو بگاڑنا ہے تاکہ ناجائز تسلط کے خلاف جاری کشمیریوں کی مزاحمت مکمل خاتمہ ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ ایک زندہ و جاوید قوم ملت ہونے کے سبب کشمیری مکمل طور پر آگاہ ہیں کہ اپنے عزت و وقار اور ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کوکیسے محفوظ و مامون رکھا جاتا ہے اور اس ضمن میں کوئی بھی کشمیری کسی بھی قسم کا تساہل نہیں دکھا سکتا ہے۔ ادھر فروٹ گروس بارہمولہ نے بھی جمعہ کو دفعہ35اے کے حق میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ۔ درجنوں فروٹ گروس نے بارہمولہ میں سڑکوں پر نکل کر جموں وکشمیر کی تشخص کے خلاف کی جانی والی سازشوں کے خلاف آواز بلند کی۔فروٹ گروس انجمن کے چیئرمین محمد یوسف ڈار نے بتایا کہ اگر35اے کو ختم کیا گیا ،تو کشمیر میں ہر شے منجمند ہو کر رہ جائیگی ۔راجوری ،پونچھ اور خطہ چناب سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق احتجاجی مظاہرے کئے گئے ۔مظاہرین نے ہاتھوں میں اسٹیٹ سبجکٹ قانون کی مجوزہ منسوخی کے خلاف پلے کارڈ اُٹھائے اور فلک شگاف نعرے بلند کرتے ہوئے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھرپور شرکت کی۔
ادھر حریت کانفرنس (گ) کی طرف سے آج حیدرپورہ چوک میں ریاست کے مسلم اکثریتی کردار کو ختم کرنے کے بھارتی منصوبوں کے خلاف عوامی احتجاجی لہر میں شدّت لائے جانے کے حوالے سے حریت سیکریٹری جنرل غلام نبی سمجھی کی قیادت میں ایک احتجاجی ریلی کا انعقاد عمل میں لایا جس میں حریت اکائیوں کے سربراہوں یا نمائندوں بشمول نثار حسین راتھر، مولوی بشیر عرفانی، محمد یوسف نقاش، بلال صدیقی، امتیاز احمد شاہ، محمد یٰسین عطائی، خواجہ فردوس وانی، یاسمین راجہ، شکیل احمد بٹ، سید امتیاز حیدر، محمد حنیف ڈار، عبدالرشید لون، محمد عمران، علی محمد راتھر، قمر الزمان، علی محمد ملہ، محمد باقر، محمد افضل، محمد اقبال، محمد یوسف، محمد مقبول، اور محمد رفیق کے علاوہ سینکڑوں کارکنوں اور عام نوجوانوں، بزرگوں اور خواتین نے شرکت کی۔ احتجاجی مظاہرے سے قبل جامع مسجد حیدرپورہ میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے غلام نبی سمجھی نے کہا کہ بھارت جموں کشمیر میں حقِ خودارادیت کی تحریک کو کمزور کرنے کے لیے مختلف منصوبوں پر عمل کرنے کی ناکام کوششوں میں لگا ہوا ہے، جس کے لیے سب سے پہلے بھارتی آئین کے علاوہ ریاست جموں کشمیر کے آئین میں ان تمام رُکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے دفعہ 35A اور دفعہ 370کو منسوخ کرنے کے لیے سپریم کورٹ کو استعمال میں لایا جارہا ہے۔ احتجاجی مظاہرہ میں شریک قائدینِ حریت نے اس موقع پر اس عہد کا اعادہ کیا کہ بھارت کی طرف سے یہاں کی آبادی کا تناسب تبدیل کرکے اِسے ایک ہندو راشٹریہ کے زیرِ تسلط لائے جانے کے مذموم ہتھکنڈوں کو خاک میں ملانے کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دینے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ ( کے پی ایس)
Sign in
Sign in
Recover your password.
A password will be e-mailed to you.
Comments are closed.