آئی ایس آئی پر الزام لگانے پر جسٹس شوکت صدیقی کو اظہار وجوہ کا نوٹس

سپریم جوڈیشل کونسل نے فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس یعنی آئی ایس آئی پر عدالتی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کرنے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے 31 جولائی کے اجلاس میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو نوٹس جاری کیا جس اجلاس کی صدارت پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کی تھی۔

اس نوٹس میں سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اس بارے میں 28 اگست تک جواب داخل کروانے کی ہدایت کی ہے۔

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے چند روز قبل راولپنڈی بار سے خطاب کے دوران فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر الزام عائد کیا تھا کہ اس ادارے کے اہلکار نہ صرف عدالتی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں بلکہ مختلف مقدمات میں اپنی مرضی کے بینچ بنوا کر اپنی خواہشات کے مطابق فیصلے لیتے ہیں۔

اس تقریر میں جسٹس شوکت صدیقی نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انور کاسی سے ملاقات کر کے اُنھیں سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو احتساب عدالت سے ملنے والی سزا کے خلاف اپیلوں کی سماعت 25 جولائی کو ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد کرنے کا کہا گیا تھا جسے جسٹس شوکت صدیقی کے بقول تسلیم کرلیا گیا تھا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ان الزامات پر فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو تحقیقات کرنے اور قانون کے مطابق کارروائی کرنے کا کہا تھا۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے جاری ہونے والے اس نوٹس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ نوٹس آئی ایس آئی کی کسی تحریری درخواست پر دیا گیا ہے یا پھر وزارت دفاع نے اس ضمن میں سپریم جوڈیشل کونسل کو جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف کارروائی کرنے کی درخواست دی ہے۔

ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ان الزامات پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی اِن کیمرہ ہوگی یا کھلی عدالت میں۔

سندھ اور بلوچستان بار کونسلز کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے مزکورہ جج کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے فل کورٹ بلانے کا مطالبہ سامنے آیا ہے۔

اس مطالبے میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ریفرنس کا بھی حوالہ دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر الزامات چیف جسٹس پر ہوں تو سپریم جوڈیشل کونسل کی بجائے فل کورٹ ریفرنس بلایا جائے جس میں چیف جسٹس شامل نہ ہوں۔

واضح رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ریفرنس کی سماعت کرنے والے سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ اور ملک کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار پر بھی اعتراضات اُٹھائے گئے ہیں کہ اُن کے خلاف بھی ریفرنس دائر کیا گیا ہے لہذا اس ریفرنس کا فیصلہ ہونے تک وہ کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس کی سماعت نہیں کرسکتے۔(بشکریہ بی بی سی اردو)

Comments are closed.