وادی لہولہان، حقائق کو سامنے لانا وقت کی پکار

تحریر
ناظم نذیر

اتنا خائف ہوں میں اس دور کے ہنگاموں سے
اب ہوا سانس بھی لیتی ہے تو ڈر جاتا ہوں
نقویؔ

اب شاید ہی کوئی ایسا دن گذرتا ہے جب انسانوں کے خون سے وادیٔ جنت بے نظیر لہولہاں نہ ہوتی ۔جب والدین اپنے بڑھاپے کے سہاروں اورجگر کے پاروں کو کندھا دیکر دار فانی کی طرف پُر نم واشکبار آنکھوں سے وداع نہ کرتے ہیں ۔شفیق مائیں جو اپنے لخت جگروں کے خواب سجاتے ہیں ان کے سر پر سہارا باندھ کر دُلھا بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہوکر ناز ونخرے کرتی ہیں اور بہنیں اپنے درد دل بھائیوں کے ہاتھوں سے ڈولی سجانے اور ہاتھ پیلے کرنے کا بڑی بے تابی سے انتظار کرتی ہیںلیکن اس دور پُر آشوب میں جب خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے تو ان کے والدین کے ارمان ان کے سینوں میں ہی رہ جاتے ہیں۔مائوں کی شفقت کے دراز سپنے ان کے سینوں میں ہی دفن ہوجاتے ہیں وہ سہرا باندھنے ،خوشیاں منانے کے بجائے اپنے لخت جگروں پر لپٹے ہوئے کفن پر پھول ومٹھایاں نچھاور کرنے اورچیخ وپکار سے زمین وآسمان کو ہلانے کے سوا کچھ کر نہیں پاتی ہیں ،مہندی لگانے کیلئے ہاتھ پھیلائی بہنیں اپنے ہاتھوں کو مَلتے ہوئے اپنے بھائیوں کی لاشوں پر گریہ زاری کرتی رہتی ہیں ۔نوجوان جو معمار قوم ہوتے ہیں جن سے قومیں آباد اور سماج تعمیر ہوتے ہیں ۔یہ معمار قوم مسمار ہوجاتے ہیں ۔ان سے اب مرگزار اور قبرستان ہی آباد ہورہے ہیں ۔حالانکہ ماضی میں روایت عام تھی کہ جب کوئی انسان مرتا تھا یا مارا جاتا تھا تو آسمان خون آلود ہوجاتا تھا لیکن اب قتل عام پر آسمان ابر آلود بھی نہیں ہوتا تو رنگ بدلی کی بات ہی نہیں ۔انسان جو کسی کے موت کی خبر سن کر ہی آنسو بہاتا تھا اب مادیت پرستی نے ان کے آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے اب مایوس ہونا بھی گورا نہیں کرتا۔یہ وادیٔ کشمیر ہے جنت بے نظیر گذشتہ تین دہائیوں سے خون آلود ہے ،لاکھوں جانیں تلف ہوئیں ،گھروں کے گھر اجڑ گئے ،ہزاروں بیوائیں اپنے ننھے منے بچوں کے سہارے جینے پر مجبور ہوگئیں ۔یہاں کے حالات آئے روز کروٹیں بدلتی ہیں اور سیاست کے حواری ان حالات کا خوب مزہ لے رہے ہیں حالانکہ اس کرب وبلا میں جہاں بندوقوں کی نوکیں کھول کر بے سروسامان نوجوانوں اور معصوم بچوں کو گولیوں سے چھلنی کرکے ان کو ابدی نیند سلادیا جاتا ہو۔وہاں حکمرانوں اور درد دل رکھنے والوں کو اس پر متفکر ہوناچاہئے اوران معصوم ہلاکتوں پر روک لگانے کیلئے مشترکہ حکمت عملی اپنانی چاہئے کیونکہ انسانوں کا خون ہورہا ہے ۔مرنے والا کون ہے ؟وہ موضوع بحث نہیں ،لیکن انسان ہی مرجاتے ہیں ۔جوکسی کا باپ ، بھائی اور بیٹا ہوتا ہے ان کے مرنے سے بہر حال ایک بہت بڑا نقصان ہوتا ہے کیونکہ ہر کوئی انسان سماج کا ایک بڑا حصہ ہوتا ہے۔کیا اس قتل غارت گری اور کشت خون کو روکنے کیلئے کوئی راہ نہیں نکل سکتی ہے؟کیوں نہیں! جبکہ ہمارے حکمران اور سیاستدان عاقل اور فہیم ہونے کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں لیکن حالات کے تئیں ان کی عدم توجہی لمحہ فکریہ ہے۔

عشق قاتل سے بھی ، مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتاکس سے محبت کی ،جزامانگے
اقبالؔ

ہوس اقتدار یا مادیت پرستی کے باعث ان معصوں کی لاشوں پر سیاست کی جارہی ہے جس سے انسانیت شرمسار ہوجاتی ہے ۔ان تین دہائیوں کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہر کنبہ کوغمزدہ اور غمگین پاتے ہیں کیونکہ ان نامساعد حالات نے ان کو کسی نہ کسی طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہے ۔ مسلح افراد کی آپسی تصادم آرائی حالات کے تقاضوں کے مطابق بجا ہے لیکن غیر مسلح افراد پر آہنی ہتھیاروں سے وار کرنا انسانیت کی صریحاً پامالی ہے ۔یہاں کہنے اور لکھنے کو بہت ہے لیکن نہ لکھنے کی ہمت ہے اور نہ لکھنے کی آزادی بر حق ہے کیونکہ یہاں بندوق بے لگام ہے مگر قلم و زبان پر تالے چڑھائے گئے ہیں۔

یہ کیا دستور زبان بندی تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زبان میری

دلدوز واقعات پیش آنے کے بعد درد دل رکھنے والوں کے رونگھٹے کھڑا ہوجاتے ہیں ماضی کے دریچوں کو کھولے بغیر اگر ہم گذشتہ کئی برسوں کی طرف دیکھیں توہزاروں گھرانے اپنے لخت جگروں کی جدائی سے نڈھال ہیں اور کسمپری کی حالت میں زندگی گذار رہے ہیں۔ امسال کے ماہ اپریل کے ابتدائی ایام خون آلود اور غمناک ہیں اور تب سے ہر طرف سناٹا واندھیرا چھایا ہوا ہی دکھائی دیتا ہے۔یکم اپریل ہی جنوبی کشمیرمیں فوجی محاصرہ کے بعد عسکریت پسندوں اور فورسزکے درمیان تصادم آرائی کے دوران جہاں ایک درجن سے زائد عسکریت پسند اورچارفورسز اہلکار جو دونوں سمت اسلحہ بردار تھے ایک دوسرے کے ساتھ لڑ کر جاں بحق ہوئے وہیں بے سر و سامان نوجوانوں پر گولیاں چلا کر موت کی آغوش میں پہنچا دیا گیا ہے اور درجنوںافراد کو زخمی کردیا گیا ۔جس سے پوری وادی اُبل پڑی اور شہر ودیہات میں لوگ ایک بار پھر سڑکوں پر آئے اس دوران کنگن نوجوان گوہر بھی زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ بیٹھا۔ابھی چند دن ہی گذرے تھے کہ جنوبی کشمیر کے کھڈونی کولگام میں چا ر معصو م نوجوانوں پر گولیاں چلا کر ان کو موت کی وادی میں پہنچا دیا گیا ۔’’یہ جنگ ہے جنگ آزادی ‘‘میں غیر مسلح افراد پر بندوقوں کی نوکیں کھول دینا کوئی بہادر ی نہیں ہے ۔ ہر سماج و قوم کی فوجیں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ پر بے سر وسامان انسانوں کی حفاظت کے لئے مامور ہوتی ہے اور ان کی پہرہ دار ی سے عام انسان سکون و آرام دہ زندگی بسر کرتے ہیں کیونکہ فوجی اپنی بے باکی اور بہادری کا مظاہرہ کرکے معصوم انسانوں کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں۔لیکن یہاں حالات اس کے برعکس ہیں کیونکہ یہاں پر نافذ العمل’’ آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ‘‘ (افسپا)کو ڈھال بنا کر معصوم انسانوں کی جانیں ضائع کرنے میں کوئی پس وپیش نہیں چھوڑی جاتی ہے ۔ امن و قانون کو برقرار رکھنے کے لئے فورسزا پنے طاقت کے بل پر عسکریت کا خاتمہ چاہتی ہے لیکن معصوم انسانوں کو قتل کرنے سے کس بہادری اور بے باکی کا مظاہرہ کرتے ہیں؟کیا اس خون ناحق کو عسکریت پسندی سے جوڑ کر قوم پر ستی کا عَلم بلند کرنا ایک جمہورپسند ملک کے سپاہیوں کو زیب دیتا ہے؟ عسکریت پسندوں کو زیر کرنے کے لئے فوج کی کمک در کمک ہتھیاروں سے لیس ہو کر لڑ پڑتی ہیں۔ گاہے ان کو مار ڈالتے ہیں ۔گاہے وہ فرار ہو کر دوسری جگہوں پر منتقل ہو جاتے ہیں۔بہر حال یہ تو مسلح افراد سے اسلحہ برداروں کے خلاف جنگ ہے لیکن بے سر وسامان نوجوانوں کے مجروح جذبات کیلئے بھی ان ہی آہنی ہتھیاروں کا استعمال جس سے وہ بے خبری کے عالم میں ابدی نیند سوتے ہیں۔ان معصوموں کو قتل کرنے سے ان کے درد دل والدین اور اقرباء کے جگر پارہ پارہ ہوجاتے ہیں۔ اس سے حالات پر نہ قابو پایاجاسکتا ہے نہ امن لوٹ سکتا ہے بلکہ اس قتل و غارت گری سے امن و آشتی دم توڑ بیٹھی ہے اور جذبات و احساسات اُبھر کر نئی نسل جنگ پر اُتر آتی ہے ۔جہاں بندوق کو خاموش کرنے کی بات کی جاتی ہے وہاں تعلیم یافتہ اور امیر گھرانوں کے چشم و چراغ اب بندوق کو ہی نجات کی راہ سمجھ کر عسکریت کی صفوں میں شامل ہورہے ہیں جو لمحہ فکریہ ہے ۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ریاست جموں وکشمیر تعلیمی اعتبار سے ذرخیر اور ارفع و اعلیٰ ہے لیکن اس خطے میں پھیلی بد امنی نے جہاں ہر شعبہ کو متاثر کرکے رکھ دیا ہے۔ وہیں شعبہ تعلیم بری طرح متاثر ہے ۔کیونکہ نئی پود حالات کے گردوپیش سے ذہنی کوفت کے شکار ہیں ۔ یہاںحکومتیں تو ہیں لیکن لوگوں کے دل جیتنے کے بجائے دل توڑے جاتے ہیں۔حکمرانوں میں حکمت و دانائی کا مادہ پیوست ہونا امر حق ہے اور تاریخ کی ورق گردانی سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جن حکمرانوں نے اپنی رعیت اور قوم کو امان و تحفظ دیا ہے وہ حکمران فلاح و کامیاب ہوئے ہیں اور تاریخ کے اوراق میں ان کے کارنامے سنہرے حروف سے کنند ہیں ۔ جن حکمرانوں نے ہوس اقتدار اور حقیر مفادات کے خاطر لوگوں کے جان ومال سے کھیلا ہے ان کا انجام بُرا سامنے آیا ہے اور تاریخ نے بھی ان کو بخشا نہیں ہے بلکہ ان کے ہر ساز ش کا پردہ فاش کیاجاچکا ہے جس کے نتیجے میں ان حکمرانوں کے مداحی بھی ان سے ناراض ہیں ۔یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ ریاست جموں وکشمیر مسلم اکثریتی ریاست ہے لیکن یہ مختلف مذاہب کے پیرو کاروں کا گہوارہ ہے اس خطے میں بھائی چارہ اور آپسی ہم آہنگی روز اول سے ایک نعرہ رہا ہے لیکن اس کو بانٹنے کے لئے سیاست کو بروئے کار لایاجارہاہے۔ فرقہ پرستی کو ہوا دیکر یہاں افراتفری کا ماحول قائم کیاجارہاہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مسلمانوں میںآپسی اختلافات پیدا کرکے ان کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہونے کی سازشیں بھی رچائی جارہی ہیں ۔ انسان جس کو اللہ رب العزت نے اشرف المخلوقات کے لقب سے نوازا ہے لیکن افسوس! یہ انسان معاون ومدد گار ہونے کے بجائے ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بناہواہے جو انسانیت کے اصول و ضوابطہ کے منافی ہے ۔یہاں انسانوں کو مارنے کی انسانیت اور جمہوریت کے علمبرداروں نے سند حاصل کی ہے ۔یہ مبنی بھر حقیقت ہے کہ طاقت اور جنگ سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا بلکہ تمام مسائل کاحل بات چیت اور آپسی ہم آہنگی میں مضمر ہے ۔حکمران اور سیاستدان مذاکرات کے ذریعہ مسائل کاحل تلاش کرنے کی دُہائی تو دیتے ہیں لیکن یہ صرف بیان بازی تک ہی محدود ہے ۔آج ریاست جموں کشمیر کے کشیدہ اور پُرتنائو حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلی مرتبہ فوج کے سربراہ بپن راوتھ نے اس بات کااشگاف الفاظ میں اظہار کیا کہ ’’کشمیر میں بندوق سے کسی کو کچھ حاصل ہونے والا نہیںہے اور نہ فورسز نہ جنگجو حصول مقصد میں کامیاب ہونگے ،قیام امن کیلئے ہمیں مل بیٹھ کر کوئی راستہ نکالنا پڑے گا ‘‘۔جبکہ پاکستانی فوج کے سربراہ جاوید باجواہ نے اپنے موقف کو ایک بار پھر دہراتے ہوئے کہا کہ ’’تلخیوں کو دور کرنے کی خاطرجامع اور بامعنی مذاکرات ناگزیر ہیں اور ہم حقیقی معنوں میںامن کے خواہاں ہیں‘‘فوجی سربراہوں کے بیانات حکمرانوں کیلئے ایک سگنل ہے اوران کیلئے بطور مشعل راہ ثابت ہونگی ۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمران ضد اور ہٹ دھرمی سے بالا تر ہو کر بنیادی مسئلہ کی طرف توجہ مبذول کرکے ایک مشترکہ حکمت عملی کے تحت ان حالات پر قابو پانے میں اپنا رول ادا کریں۔تاکہ انسانی جانیں زیاں ہونے اور مال ومتاع تباہ و برباد ہونے سے بچ سکے اور قیام امن کا خواب شرمند ہ تعبیر ہوسکے۔

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تومٹ جاتاہے
خون پھرخون ہے ٹپکے گاتو جم جاتا ہے
ساحرؔ

Comments are closed.