محمد افضل گورو کی پانچویں برسی ،کیا لطفِ انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

تحریر :ناظم نذیر

یا لُطفِ انجمن کا جب دل ہی بُجھ گیا ہو

 حقوق انسانی کی پامالی حیوانوں سے نہیں ہوسکتی ہے۔ کیونکہ وہ انسان کے تابع اور محتاج ہوتے ہیں۔ لیکن انسانیت کے ازلی وجود کی پامالی اور پاسداری انسان کے ہی حد اختیار میںہے۔

زمان و مکان کی قید سے بالا تر ہوکر انسان اپنی خود مختاری اور خود غرضی کو دوام بخش کر ایسے کارنامے انجام دیتا ہے جو اس کے حقیقی فطرت کے صاف شیشے کو مکّدر کردیتا ہے۔ اور اس کے مردہ ضمیر کی تازہ ترین مثال ظاہر کرتی ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ حقوق انسانی کی پامالی حیوانوں سے نہیں ہوسکتی ہے۔ کیونکہ وہ انسان کے تابع اور محتاج ہوتے ہیں۔ لیکن انسانیت کے ازلی وجود کی پامالی اور پاسداری انسان کے ہی حد اختیار میںہے اور یہ بنی نوع انسان اپنی خودمختاری کا ناجائز فائدہ اٹھاکر اپنی ذاتی خود غرضی اور ذاتی لالچ کو عروج دیکر انسانی حقوق کی پامالیوں کو سرانجام دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا ہے۔ یہاں تک ایسے فیصلے طے کرتا ہے جس سے انسانیت کیا باضمیر انسانوں کے رونگھٹے کھڑا ہوتے ہیں۔ دنیائے انسانیت کو چلانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے مکمل ضابط حیات قرآن پاک کی صورت میں نازل فرمایا ہے لیکن انسان اپنی خودمختاری میں انانیت کا مادہ پیوست کئے ہوئے اور اپنے منشا کے مطابق قاعدے و قانون مرتب کئے ہیں۔ جو اگر چہ ذہین اور فہیم شخصیات کے مشاورت اور آراء سے ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ تاہم یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان کی نظر اور اسکی علمی بصیرت محدود ہے ۔جس کی وجہ سے ایسے قواعد و ضوابط ترتیب دئے جاتے جو انسانوں پر تلوار لٹکانے اور تختہ دار پر چڑھانے کیلئے واضح ہوتے ہیں۔ جبکہ خدائی ضابطے ان سے بلند و بالاتر ہیں جس میں ظالم کو سزا اور مظلوم کو پناہ کے ضابطے مسلم ہیں۔ انسانوں کے بنائے ہوئے قانون نے9فروری 2013کو دنیا میں بالعموم اور وادی کشمیر میں بالخصوص ایسے شعلے بڑھکائے جو ابھی تک بجھنے کا نام نہیں لیتے ہیں۔ بھارت کے ایوان پارلیمان نے بڑی بے باکی لیکن رازداری کے ساتھ پارلیمنٹ حملے میں ملوث قرار دئے گئے کشمیری نوجوان ڈاکٹر محمد افضل گورو جو کشمیر کے معروف قصبہ سوپور کے متصل گاؤں جاگیر دوآبگاہ کے رہنے والے تھے کو تختہ دار پر لٹکانے کا فیصلہ لیا۔ اس خبر کو سننے سے پہلے ہی وادی کے لوگوں کو محصور کرکے رکھد یا جبکہ حقیقت کے دعویدار اور انصاف کے متقاضی دلیری اور بہادری سے بلا خوف خطر کے مجرم کو سزا سناتے ہیں۔ لیکن افسوس!
لہو میں رنگ دیا قاتل نے سر سے پاؤں تک
میرے منصف کو یہ بھی خودکشی معلوم ہوتی ہے
محمد افضل گورو کی زبان بندی تو کی گئی لیکن تند اور تیز ہواؤں نے دارورسن پر سوار ہونے والے شاہکار کی وکالت کرتے ہوئے آگ بڑھکتے شعلوں کی طرح پھیلائی اور میڈیا و انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا کے ہر کونے میں یہ خبر گونجنے لگی۔ جموں و کشمیر کی قوم جو ابھی اپنے لخت جگروں اور بزرگوں کی جدائی کے زخم پُر ہی کررہی تھی اور ایک زخم ’’ناسور‘‘ کی مانند لگ گیا اور ہر دل کی دھڑکن تیز اور ہر آنکھ نم ہوگئی۔ مجروح ہوئے جذبات کو قابو میں رکھنے کیلئے موجودہ سرکار نے گورو کو تختہ دار پر لٹکانے سے قبل ہی پوری وادی میں ہائی الرٹ جاری کیا ہوا تھا اور تقریباً دس اضلاع میں کرفیو نافذ کیا گیا۔ کرفیو کے باوجود بھی نوجوانوں کے گرم لہو میں ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ وہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر سڑکوں اور شاہراوں پر نکل آئے اور بے ساختہ بول پڑے ’’افضل تیرے خون سے انقلاب آئے گا‘‘ متعدد جگہوں پر تعینات نیم فوجی دستوں، پولیس اور مظاہرین کے مابین پتھراؤ اور جھڑپوں کے واقعات رونما ہوئے۔ اس دوران درجنوں افراد زخمی ہوئے جبکہ بے گناہی کی پاداش میں سنبل بانڈی پورہ میں ناؤ میں سوار ہونے والے تین نوجوان گولیوں کے شکار ہوئے اور زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ بیٹھے جبکہ وترگام رفیع آباد میں 14سالہ کمسن اور معصوم نوجوان عبید مشتاق ولد مشتاق احمد جس کے ہاتھوں میں کوئی ہتھیار یا بارود نہیں تھا بھی نیم فوجی دستوں کی گشتی پارٹی کے ہاتھوں گولیاں لگنے سے داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ اس طرح سے  اُس قرب ناک واقعہ سے وادی کے طول وارض میں حالات نے سنگین رخ اختیار کیااور آج 4سال گذرنے کے باوجود بھی ریاست جموں وکشمیر بالخصوص وادی کشمیر میں 9فروری کو یوم سیاہ کے طور پر منایاجارہاہے ۔اورمحمد افضل گورو مرحوم کی یاد میں فاتحہ خوانی اور تقریبات کا اہتمام کیا جارہاہے۔
مختصر سوانحہ حیات
محمد افضل گورو اپنے ابتداء سے ہی ذہین اور فہیم تھے یہی وجہ ہے کہ مرحوم نے کمسن یعنی 6 سالہ عمر میں قرآن شریف پڑھا ۔جس میں عام بچے اسکول کا رخ کرتے ہیں اور کمال صلاحیت کا راز گورو پر آشکار ہوئی کہ 14 سال کی عمر میں قرآن شریف کا تفسیر پڑھا اور مولانا مودودیؒ کے مصنفات کا مطالعہ کرنے میں مشغول ہوئے ۔ محمد افضل گورو میڈیکل کالج میں ابھی پر ہی تول رہے تھے تو کشمیر میں تحریک آزادی کی مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا۔ اور شہید گورو نے مسلح جدوجہد کیلئے کمر کس لئے۔ جہاں افضل گورو ماہر امراض کے طور پر معرض وجود میں آئے تھے وہیں وہ وطن عزیز کے امراض کا تشخیص کرنے پر اتر آئے۔ بہر حال واردِ کشمیر ہوکر صورتحال کا جائزہ لیکر مسلح جدوجہد سے دستبردار ہوئے لیکن تذیب اور اذیت خانوں میںایسی بے مثال قربانیاں پیش کئے ہیں جو تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کرتے ہوئے صاف عیاں ہوتی ہے۔ ان حالات کا سنگدلی سے مقابلہ کرکے اور اپنے اہل و عیال کی پرورش کرنے کی ٹھان لی اور سوپور میں ادویات اور سرجیکل آلات امراض کی ایجنسی کے ساتھ کام کرنے لگے۔ اپنی محنت اور صلاحیت سے ہی5ہزار سے 6ہزار روپے ماہوار کمانے لگے۔مرحوم محمد افضل گورو نے دلی جانے کے حوالے سے اپنے وکیل سشیل کمار کے نام لکھے خط میں اس کی باضابط وضاحت کی تھی یاد رہے کہ وہ خط بہ مترجم وادی کے موقر روزناموں، ہفتہ وار اور کئی قومی سطح پر کے جریدوں میں شائع ہوا۔
محمد افضل گورو کو تختہ دار پر لٹکانے کے بعد مرحوم کی انگریزی اور اردو زبان میں تحریر کئے گئے خطوط اخبارات و جریدوں میں بطورخبر شائع کئے گئے اور جن لوگوں نے مرحوم کے ساتھ جیل میں ایام اسیران گذارے انہوں نے بھی بے ساختہ اپنی زبانیں کھول دیں۔ اورمرحوم کے دوران اسیری ان کے کارناموں کو تحریر کرکے اخبارات میں شائع کروایا۔
تختہ دار اور حالات
بھارتی پارلیمان نے 2001 میں ہوئے پارلیمنٹ حملے میںملوث قراردئے کشمیری نوجوان کے بارے میں عدالت کے ذریعے جاری کردہ فیصلے کو حتمی شکل دیکر پھانسی کی سزا سنائی اور اس حادثے میں جان بحق ہوئے لواحقین کو تسلی دی۔ عالمی سطح کے تجزیہ نگاروں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے نامور تجزیہ نگاروں ،دانشوروں اور حقوق انسانی کے معروف کارکنوں جن میں گوتم نو لکھا، رادھا کمار، ارون دھتی رائے نے جب افضل گورو کی پھانسی کے معاملے پر تبصرہ کیا ۔تو انہوں نے بے باک انداز میں حقیقت کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ افضل کو سولی پر رازداری کے ساتھ لٹکانا مشتبہ عمل ہے او رجب انہوں نے حقیقی واصلی محرکات جانے اور پارلیمنٹ حملے میں ملوث ہونے کے اثبات و شواہد جانے کی کوشش کی تو بے گناہی اور بے جرمی کے سوا کچھ سامنے نہیں آیا۔ اسکے علاوہ ریاست جمو ں کشمیر کی سابق سرکار اور سیاست دانوں نے اگر چہ کرسی کو محفوظ رکھنے کیلئے مرکزی حکومت کے ساتھ تعلقات جاری رکھے لیکن جب وہ کئی پلیٹ فارموں اور میڈیا  پر آئے تو انہوں نے بھی افضل گورو کی بیہمانہ موت پر آنسو بہائے ،وائے ویلا کیااور میت کولواحقین کے سپرد کرنے کیلئے خطوط ارسال کئے۔اور اُس وقت کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے ایوان اسمبلی کے پُرہجوم اجلاس میں واشگاف الفاظ میں کہا کہ’’ فیصلے کہیں اور آتے ہیں اور سر میرے چڑھاتے ہیں۔‘‘جسد خاکی کو واپس کرنے کا ’’فیصلہ کہیں اور ہوتا ہے لیکن سر میرے چڑ ھایاجاتاہے ‘‘جبکہ اس وقت کی حزب اختلاف پارٹی اور موجودہ مخلوط سرکا رکی اہم اکائی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے آواز بلند کرتے ہوئے اس کو قتل ناحق قرار دیا جبکہ ماہر قانون وپی ڈی پی کے سینئر لیڈر اور موجودہ پارلیمنٹ ممبر نے اخبارات میں مرحوم افضل گورو کے حوالے سے مضامین اور اشعار لکھ کر مرحوم کو معصوم اور بے گناہ قرار دیا ۔ اسی طرح سے تقریباً ہر کوئی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی تنظیم اور اشخاص محمد افضل گو رو کی پھانسی کو غیر جمہوری قرار دیتا ہے۔ اور یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سیاست کے میدان میں منجھیہ ہوئیں سیاست دان اور عوامی  نیشنل کانفرنس کی سربراہ بیگم خالدہ شاہ نے افضل گورو کو رازداری سے سزائے موت دینے کو غیر اخلاقی قرار دیا اور سابق وزیر اعظم ہند ڈاکٹر من موہن سنگھ ،کانگریس سرپرست اعلیٰ سونیا گاندھی اور  صدر ہند کے نام گورو کی میت کی واپسی کے حوالے سے مکتوب بھی ارسال کئے۔ اسکے علاوہ لوگوں کی دہرائی گئی مانگ ’’افضل گورو کی میت کو لواحقین کے حوالے کیا جائے‘‘ پر تجزیہ کرتے ہوئے سرکردہ تجزیہ نگاروںاور دانشوروں نے افضل کی میت کو تہاڑ جیل کے بیابان صحن میں دفن کرنا اور لواحقین کو مرحوم کے آخری دیدار سے محروم رکھنا غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل ہے۔ انہوں نے ہندوستان کی یو پی اے  سرکار کے وزیر داخلہ سوشیل کمار شنڈے کے اس بیان کو مضحکہ خیز قرار دیا جس میں وزیر نے افضل گورو کی میت کو منتقل نہ کرنے کا فیصلہ سنایا۔
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یارب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
اور ستم ظریفی یہ ہے کہ 4سال گذرنے کے باوجود بھی بار ہا بار اپیل کرنے کے بعد بھی مرحوم افضل گو رو کی جسد خاکی کو واپس نہیں کیا گیا۔جوکہ انسانیت سوز اور جذبات کے ساتھ کھلم کھلا کھلواڑ ہے۔
افضل گورو کی اہلیہ تبسم گورو جس نے اپنے آرام اپنے شوہر پر قربان کیا ، جس نے تمام مصیبتوں کا بہادر ی سے مقابلہ کیا ، اور ایک مثالی خاتون ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔ مختلف جریدوں اور اخبارات میں کالم نگاروں، صحافیوں ، دانشوروں اور اسکالروں نے محمد افضل کی اہلیہ اسکے اکلوتے بیٹے غالب اور اہل خانہ کے عظیم صدمے پر تبصرہ کئے ہیں اور لواحقین نے افضل گورو کے دئے گئے وصیت اور ہدایت ناموں کو میڈیا کے سامنے رکھ دیا ، عوام تک پہنچانے کی کوشش کی ۔وہ قوم کے غمخوار محمد افضل گورو کی حقیقت پسندی کے حقائق کی بازیابی چاہتے ہیں۔ یہ امر حق ہے کہ محمد افضل گورو دنیا میں ظاہری طور جدا ہوئے۔ لیکن جو نقوش افضل گورو نے اپنے تختہ دارپر چڑھنے سے منظر عام پر لائے وہ قوم کیلئے مشعل راہ کے طور ثابت ہونگے۔
ضمناً شہید افضل گورو کے اکلوتے فرزند غالب افضل جو شمالی کشمیر کے معروف وممتاز تعلیمی اد ویلکن سوپور میں زیر تعلیم ہیںنے گذشتہ سال میٹرک کے امتحانی نتائج میں امتیازی پوزیشن حاصل کرکے اس بات کو واضح کیا کہ غالب اپنے والدِ ماجد محمد افضل گورو کی ذہانت اور متانت کو اپنے اندر پیوست کرنے کا مادہ رکھتے ہیں۔ اور مستقبل قریب میں غالب اپنے مستقبل کو تابناک اور روشن بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ اورغالب کے امتحانی نتائج میں امتیازی کامیابی پر ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بہت سے سیاستدانوںاور تجزیہ نگاروںنے مختلف تجزیے  اور تبصرے کئے اور غالب افضل کی کامیابی کوحوصلہ افزا ء قرار دیا وہیں ہندوستان کے کئی سیاستدانوں اور تجزیہ نگاروں بشمول معرف فلمی ادا کار انو پم کھیرنے غالب افضل کی کامیابی کو سازش قرار دیتے ہوئے اس کے جواب ناموں کی جانچ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اور یہ بات غور طلب ہے کہ اس طرح کے مطالبے تعصب اور ضد کے متراف قرار دے جائے سکتے ہیں کیونکہ میٹرک کاامتحان پاس کرنے والے اُمیدوار کی نظریں اُس کو اپنے مستقبل کی طرف رہتی ہے اور وہ اُس کامیابی کو پانے کے لئے مگن رہتا ہے۔ غالب گورو اپنے والدماجد اور والدہ ماجدہ کے ارمانوں کو پورا کرنے اور اُن کے خوابوں کو شرمند ہ تعبیر کرنے کیلئے تعلیم کے میدان میں اپنی محنت جاری رکھا ہوا ہے ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ افضل گورو کو پارلیمنٹ حملے میں مجرم قرار دیتے ہوئے ان کو تختہ دارپر لٹکایا گیا اور مرحوم کی جسد کو بھی درپردہ ہی دفن کیا گیا جو درد ان اپنوں اور پرائیوں کے سینوں میں آج بھی پیوست ہے اوراسی لئے ۔۔۔۔۔
شہید افضل گورو کی چوتھی برسی پر حسب روایت مزاحمتی قائدین کی جانب سے ہڑتال کی کال کا کشمیری عوام بھر پور ساتھ دیتارہا اور شہید افضل گورو کی یاد میں مختلف جگہوں پر دُعائیہ مجالس اور احتجاجی مظاہرے کئے جارہے ہیں۔  یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بڑوں کی نظریں بڑی ہوتی ہیں وہ حکمت عملی کو اپناتے ہیں۔ علیحدگی پسند لیڈراں ،مین سٹریم لیڈران، کشمیری قوم کا ہر فرد بشر، محمد افضل کے لواحقین جسد خاکی کی واپسی کے مطالبے پر یک زبان ہیں اور نشریات و تشہیرات سے عیاں ہے کہ جب تک نہ مرحوم کی میت کو انکے لوحقین کے حوالے کیا جائے جدوجہد جاری رہے گی۔
بہر حال محمد افضل گورو کی شہادت سے کشمیری قوم کے جذبات مجروح تو ہوئے لیکن اب اور زیادہ جریر و سنگدل ہوئے کیونکہ ہر مصیبت اور ہر ٹھوکر کھانے کے بعد سخت گیر بن جاتا ہے۔ اس کے رگوں میں انتقامی جذبے کاخون گردش کرتا ہے۔ سیاست سے بالاتر ہوکر انسانیت کے ناطے سوال کریں ۔کیا کوئی باپ، کوئی بیٹا، کوئی ماں، کوئی بیوی ، کوئی بھائی، کوئی ہمسفراپنے ہمدم کی میت کو دیکھنے کی آرزو مند نہیں ہوتے؟ اور ان کا فیصلہ سنانا ان کو اپنے ضمیر کی آواز دبانے کے مترادف ہے۔
موت ہے اسکی جس کا زمانہ کرے افسوس
ورنہ یہاں آئے ہیں سب مرنے کیلئے
ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ این ڈی اے سرکار جو جمہوریت اورانسانیت کی بقاء اور فروغ دینے کے دعوے کررہی ۔تعصب اور ضدکی عینک نکال کران اہم معاملات کی طرف اپنی توجہ مبذول کرکے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میںکلیدی رول اد کرکیایک تاریک رقم کریں ۔کیونکہ جو جیسا بوتا ہے وہ ویسا ہی کاٹتا ہے ۔بہتر ہے کہ فیصلہ لیتے وقت حالات کا جائزہ لیا جائے تاکہ ایسی صورتحال پیدا نہ
ہوجائے جس سے عوام کونقصان اور سرکار اعتمادکھوجائے ۔
نوٹ :مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا لازمی نہیں

Comments are closed.