رشوت خوری ، منشیات اور اخلاق سوز رحرکتوں سے سماجی برائیوں کی جڑیں کافی گہری
سرینگر/7دسمبر/سی این ایس/ جرائم کی رفتار میں تشویشناک اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے حساس اور شریفوں کا جینا مشکل بن گیا ہے ۔ رشوت خوری ، منشیات اور اخلاق سوز رحرکتوں سے سماجی برائیوں کی جڑیں کافی گہری ہوئی ہیں جو ابدہی کا جنازہ نکل گیا ہے حتیٰ کہ راشن کارڈ سے لے کر لاش دفنانے کیلئے بھی رشوت کا سہارا لینا پڑرہا ہے ۔ کرنٹ نیوز سروس کو ملی تفصیلات کے مطابق وادی میں مختلف قسم کے پھیلتے جرائم میں کمی کے بجائے آئے روز ان میں اضافہ ہورہا ہے اور اب ان جرائم کی شکار زیادہ تر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہو رہی ہیں۔ سماج میں پھیلتے جرائم کی اصل وجہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کا اخلاقی پستیوں کا شکار ہونا ہے کیونکہ اخلاقی گراوٹ آنے کی وجہ سے جرائم کی رفتا بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے ۔ اس دوران عوامی حلقے اس بات پر زبردست حیرانی کا اظہار کررہے ہیں کہ تعلیمی ادروں میں بچوں کو اپنی زندگی و کردار سنوارنے کے لئے والدین اساتذہ پر زمہ داری رکھتے ہیں لیکن اب یہاں کے حالات اتنے بدل گئے ہیں کہ سکولوں میں تعینات یہ اساتذہ اپنے مقدس پیشے کے ساتھ انصاف پر کھرا نہیں اتر سکتے ہیں کیونکہ تعلیمی ادارون میں ہی صحیح تربیت پانے کے بعد یہ لہو منوا سکے ہیں اور اس غیر یقینی صورتحال سے بھی نوجوان لڑکے لڑکیوں میں ایک غلط تاثر پڑجاتا ہے اور اس طرح سے جرائم بڑھنے کی ایک وجہ بن جاتی ہے۔ ادھر اب شہر سرینگر اور وادی کے اکثر علاقوں سے آئے روز شکایتیں مل رہی ہیں کہ کئی نوجوانوں کو منشیات، چوری یا اغوا کاری یا دوسرے جرائم کرنے کی پاداش میں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ سماجی بدعات نے اس قدر بھیانک رُخ اختیار کیا ہوا ہے کہ ان سے نجات دلانے والا کوئی نہیں ہے ۔ شراب ، چرس ، نقلی کرنسی کا دھندا چلانے والے اسمگلروں کو عزت کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور عدالتی طوالت کی وجہ سے نقب زنوں اور اسمگلروں کے حوصلے دن بہ دن بلند ہوتے جارہے ہیں۔ شہر سرینگر کے کئی سرکردہ افراد نے کرنٹ نیوز سروس کو بتایا کہ جہاں ریاستی پولیس ایسی کاروائیوں پر قدغن لگانے کے لئے صحیح قدم نہیں اٹھا رہی ہے وہیں عام لوگ بھی پولیس کو اپنا تعاون نہیں پیش کر رہے ہیں۔ لوگوں کا مطالبہ ہے کہ بے راہ روی اور بد چلنی کے مرتکب افراد کی آوارہ گردی کی روک تھام کے لئے موثر کاروائی ہونی چاہئے اور ایسی کاروائیوں کو وسیع کرنا چاہئے جس سے بڑی حد تک ایسی اخلاق سوز حرکتوں کی سرکوبی ہوسکتی۔ ان لوگوں کے مطابق پولیس کے علاوہ علماؤں، دانشوروں اور والدین کو اس بارے میں اب خاموشی کے بجائے آواز اٹھانی چاہئے کیونکہ کشمیری نوجوان لڑکے لڑکیاں اس طرح جرائم اور اخلاق سوز حرکتوں کے شکار ہورہے ہیں کہ اگر ان پر فوری طور روک نہ لگائی گئی تو پھر ایک ایسا سیلاب آئے گا جو پوری کشمیری قوم کو تباہی کی طرف لے جائے گا۔ ادھر معلوم ہوا ہے کہ کم سن طلبہ بھی اب اس طرح اخلاقی پستی کے شکار ہورہی ہے اور اپنی والدین کی ڈانٹ ڈپٹ برداشت نہیں کررہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے والدین بھی ان کی روک تھام نہیں کرپارہے ہیں۔ سنجیدہ فکر طبقے کے مطابق تعلیمی اداروں اور پرائیویٹ ٹیوشن سنٹروں میں درس و تدریس کے کام پر مامور استادوں کو اپنی زمہ داری کا احساس کرنا چاہئے اور طلبہ و طالبات کو اخلاقی تعلیم دینی چاہئے۔ ادھر لوگوں کے مطابق بے راہ روی اس طرح پھیلتی جارہی ہے اور یہی مختلف قسم کے جرائم کی بنیادبن رہی ہے اس لئے تمام تر احتیاط اور بروقت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے لیکن اس کے لئے ہر زمہ دار افراد کو اپنی زمہ داریوں کو نبھانا چاہئے۔
Comments are closed.