یومِ پیادہ فوج ،کشمیر میں ہمہ گیر ہڑتال
تعمیل ارشاد نیوز ڈیسک
شوکت ساحل
کشمیر وادی میں مزاحمتی قیادت سید علی گیلانی ،میرواعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک کی اپیل پر ہفتہ کو ہڑتال کی گئی اور پوری وادی میں معمول کی سرگرمیاں معطل رہیں۔یہ احتجاجی ہڑتال کشمیر میں7دہائیوں قبل بھارتی افواج کے داخلے کے خلاف کی گئی لیکن بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی ،تناﺅ اور کشمیر میں موجودہ کشیدہ صورتحال کی وجہ سے اس کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔
نئی دہلی کا ہمیشہ یہ اصرار رہا ہے کہ اس نے اپنی فوج کشمیر کے ڈوگرا مہاراجہ ہری سنگھ کی درخواست پر اور دستاویزِ الحاق پر دستخط کیے جانے کے بعد ہی بھیجی تھی۔ لیکن، پاکستان کے ساتھ ساتھ استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیر کی مزاحمتی جماعتوں کا الزام ہے کہ ایسا ایک سازش کے تحت اور کشمیر پر قبضہ کرنے کےلئے کیا گیا۔
1989 میں جموں کشمیر میں مسلح شورش شروع ہونے کے بعد مزاحمتی جماعتوں کی اپیل پر ہر سال 27 اکتوبر کو ’یومِ سیاہ‘ اور’ یومِ احتجاج‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہر سال کی طرح ہفتہ کو بھی27 اکتوبر کی مناسبت سے کشمیر میں تجارتی اور تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں۔مزاحمتی قیادت کی کال پر پوری وادی میں ہڑتال کی وجہ سے معمول کی سرگرمیاں ٹھپ رہیں۔
بھارتی فوج اِس دِن کو ’انفنٹری ڈے‘ یا پیادہ فوج کے دِن کے طور پر مناتی آئی ہے۔ اس سلسلے میں کئی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے .امسال بھی فوج کی جانب سے ’انفنٹری ڈے‘ یا پیادہ فوج کے دِن کی مناسبت سے تقریبات کا انعقاد کیا گیا .
مورخین کا کہنا ہے کہ اگست 1947 میں بھارت اور پاکستان کے دو آزاد مملکتوں کی حیثیت سے دنیا میں متعارف ہونے کے بعد کشمیر میں خوں ریزی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔کشمیریوں نے اس وقت کے مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف بغاوت کی اور پاکستان نے باغی آبادی کی مدد کے لیے پٹھان گوریلوں کی فوج یہاں بھیجی۔ بھارت کا موقف ہے کہ مہاراجہ نے باغیوں کے خلاف بھارت سے فوجی تعاون حاصل کیا اور بدلے میں کشمیر کا الحاق بھارتی حکومت کے ساتھ کیا۔
تاہم وادی کے سینئر صحافی ریاض ملک نے ہفتہ روزہ کےلئے اپنی رپورٹ بعنوان "مہاراجہ کا کشمیرالحاق معتبریا مشکوک ؟” میں کئی مورخین اور کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے کئی خلاصے کئے .
روف مصنفہ السٹر لیمب اپنی کتاب’’کشمیر…ایک سانحہ کا جنم‘‘کے صفحہ نمبر82پر رقمطرازہیں کہ مہاراجہ کے نائب وزیراعظم رام لال باترا 24 اکتوبر کو مہاراجہ ہری سنگھ اوروزیر اعظم مہر چند مہاجن کے خطوط کے ساتھ بذریعہ ہوائی جہاز دہلی روانہ ہوگئے تھے۔اِن خطوط میں بھارت سرکار سے فوجی امداد طلب کی گئی تھی تاہم بقول لیمب باترا کو دہلی میں سرد مہری کا سامنا کرنا پڑاکیونکہ ان خطوط میں شیخ محمدعبداللہ کے بارے میں کوئی ذکر نہیں تھا جب کہ پنڈت نہروشیخ محمد عبداللہ کے رول پر تکیہ کئے ہوئے تھے ۔اُن کے نزدیک الحاق کی معنوی تصدیق شیخ محمد عبداللہ کی تائید ہی ہو سکتی تھی ۔نہرو نے سردارپٹیل کو مجبور کیا کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کو بروئے کار لاکر شیخ محمدعبداللہ کی رہائی کی کوشش کریں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوااور 29ستمبر 1947شیخ عبداللہ کی رہائی عمل میں آئی۔
طارف ناز کی کتاب“Sheikh Abdullah, A victim of betrayal”میں موصوف رقمطراز ہیں کہ ’’نئی دہلی میں رام لال باترا نے بھارتی امداد کی درخواست کی، جو قبول نہ ہوئی اور اس کے بعد وی پی مینن اور مہر چند مہاجن طیارے میں سرینگر سے دہلی کی طرف روانہ ہوتے ہیںاور وہاں مدد کے طلبگار ہوتے ہیں، بعد دوپہر تک بھارتی دفاعی کمیٹی ،جس کی سربراہی لارڈ ماؤنٹ بیٹن کررہے تھے،میںکوئی اتفاق رائے پیدا نہ ہوا کیونکہ مورخین کے مطابق بیٹن اس فوجی امداد کو آزاد ریاست میں فوجی مداخلت سے تعبیر کررہے تھے اور انہیں ڈر تھا کہ اس کا بین الاقوامی سطح پر شدید نوٹس لیاجائے گا.
تاہم مہاجن نے کہا کہ ’’انہیں حکم ملا ہے کہ بھارت سے امداد نہ ملنے کی صورت میں وہ پاکستان کا رخ کریں ‘‘جس پر نہرو بپھر گئے۔ شیخ محمد عبداللہ ،جو ایک دوسرے کمرے میں یہ گفتگو سن رہے تھے ،نے ایک پرچی نہرو کو بھیج دی اور ان سے گزارش کی کہ وہ مہاراجہ کی گزارش قبول کرلیں تاکہ قبائلیوں کو واپس دھکیلا جاسکے ،نہرو آمادہ ہوئے ۔امداد کا فیصلہ کر لیاگیا جس کی توثیق بھارتی کابینہ نے کرلی جس کے بعد نہرو نے 25اکتوبر کو مینن کو کرنل سام مانک شاہ اور ایک ائر فورس آفیسر کے ہمراہ کشمیر بھیج دیاتاکہ مہاراجہ کا موڈ دیکھا جاسکے اور جب26 اکتوبر 1947کی صبح کو ہی وی پی مینن اور مہر چند مہاجن طیارے میں سرینگر سے دہلی کی طرف روانہ ہوتے ہیںتو وہاں مینن نے نہرو کو بتایا کہ مہاراجہ پریشانی کی حالت میں ہیں تو انہوں نے مینن کو بتایاکہ وہ شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ مشاورت کے بعد تیار کئے گئے دستاویز الحاق پر دستخط کیلئے مہاراجہ کو تیار کریں۔گوکہ مینن اس مشن میں 27اکتوبر کو کامیاب ہوگئے تاہم اسی دن لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مہاراجہ کے نام ایک خط لکھ کر انہیں بتایا کہ الحاق عارضی ہے اور اس کی توثیق رائے شماری کے ذریعے کرانی باقی ہے‘‘۔
ایک اورمعروف کشمیری مورخ اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر عبدالاحد نے دستاویز الحاق کو فراڈ قرار دیا ہے ۔وہ اپنی کتاب ’’Kashmir-Triumphs & Tragedies‘‘کے23ویں باب میں آرکائیوز مواد ،تاریخوں میں قلم زنی اور دستخطوں میں سیاہی کے استعمال سمیت کئی ثبوتوں کے ساتھ یہ واضح کردیتے ہیں کہ الحاق دستاویز کی اعتباریت مشکوک ہے ۔
معروف مغربی مصنفہ السٹر لیمب نے بھی اپنی کتاب’’kashmir-Birth of a Tragedy‘‘کے چھٹے باب میں اس دستاویز پر سوالات اٹھائے ہیں ،شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت آج تک دستاویز الحاق کی اصل کاپی عالمی برادری کے سامنے پیش کرنے سے قاصر ہے۔اب جہاں تک اس دعوے کا تعلق ہے کہ دستاویز الحاق پر26اکتوبر1947کو ہی مہاراجہ نے دستخط کئے تھے تویہ دعویٰ بھی مشکوک نظر آرہا ہے ۔
اکثر حلقے 27 اکتوبر کو مسئلہ کشمیر کا جنم دن سمجھتے ہیں۔ تاریخ کے مطابق سکھ رجمنٹ سے وابستہ بھارتی فوج کے پہلے جتھے کو27 اکتوبر1947کو سرینگر کے ہوائی اڈے پر اتارا گیا تھا اوراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مداخلت سے یکم جنوری 1949سے جنگ بندی نافذ ہوئی۔ اِس طرح، ریاست جموں و کشمیر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک ایسے تنازعے کا باعث بنا جِس کا مستقبل قریب میں کوئی سیاسی یا پر امن حل نظر نہیں آ رہا۔
Comments are closed.