اتحاد اور بائیکاٹ سب سے بڑا ہتھیار ۔سیول سوسایٹی کا رڑی نیشن کمیٹی
سرینگر: سیول سوسایٹی کی کارڑی نیشن کمیٹی (سی ایس سی سی ) نے کہا ہے کہ آئین ہند میں دفعہ 35-A اور دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو دی گئی خصوصی پوزیشن کی بر قراری سے متعلق ضمانتوں کو ختم کرنے کے جو جارحانہ حملے سپریم کورٹ میں شروع کے گئے ہیں، ان کے خلاف ریاست بھر میں چیخ و پکار کی گونج سنائی دے رہی ہے ۔
سرینگر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سیول سوسائٹی اراکین نے کہا کہ اس سلسلہ میں سیول سوسایٹی کی کارڑی نیشن کمیٹی (سی ایس سی سی )نے جب قانونی طور ان دفعات کا تحفظ کرنے کی خاطر جوابی عذرداری سپریم کورٹ میں دائر کی تو اسی اثنا ءمیں ریاست میں میونسپل اور پنچایتی چناﺅ کر وانے کا بگل بجایا گیا اور سپریم کورٹ نے دونوں طرف کی عذرداریوں کی شنوائی کی تاریخ جنوری 2019 تک ملتوی کر دی۔
انہوں نے کہا کہ کارڑی نیشن کمیٹی کے ممبران نے ہونے والے چناﺅ کا بائیکاٹ کرنے کی عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کی انفرادیت ،خصوصی پوزیشن اور سٹیٹ سبجکٹ کے حقوق ختم کے منصوبے باندھے جارہے ہیں اور ریاست میںغیر یقینیت کی ایسی صورت حال پیدا ہو گئی جس کا ریاست کے ماضی اور مستقبل سے گہرا تعلق ہے اس تشویشناک صورت حال کو محسوس کرتے ہوئے سی ایس سی سی کی جانب سے بائیکاٹ کی اپیل کا جن پارٹیوں نے مثبت جواب دیا اور ڈرامائی نام نہاد چناﺅ سے کنارہ کشی اختیار کی ان کے اس فیصلہ سے ان پارٹیوں کی عوام کے تئیں خیر خواہی ،ہمدردی اور نئی نسل کے مستقبل کی غم خواری کے برملاثبوت کی عوامی حلقوں میں سراہنا کی جارہی ہے۔
ان میں نیشنل کانفرنس ،پی ڈی پی ،پی ڈی ایف ،اے این سی ،ڈی این پی، سی پی آئی ایم،سکھ کارڑی نیشن اور بی ایس پی ،جموں سے جے کے یونائیٹیڈ پیس مومنٹ ،جموں مسلم فرنٹ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔رابطہ کمیٹی کے ممبران مظفر شاہ ،ایڈوکیٹ میر جاوید ،نائب مفتی اعظم ناصر الاسلام اور سکھ کارڑی نیشن کمیٹی کے چیر مین سردار جگموہن سنگھ رینہ نے کہا کہ بدلے ہوئے سیاسی حالات میں علاقائی سیاسی بارٹیوں کے لئے حکمت عملی کو تبدیل کرنا وقت کا تقاضہ بن رہا ہے کہ ریاست پر منڈلا رہے خطرات کے پیش نظر ایک عبوری حکومت کو تشکیل دینے کی تجویز پر بھی غور کیا جائے ۔
ان کا کہناتھا کہ سرکاری سطح پر سپریم کورٹ میں جاری قانونی جنگ میں خصوصی دفعات کا تحفظ کرنے میں یہ تجویز اثر انداز ہو سکے اور یہ حکمت عملی موجودہ گورنر راج میں ممکن نہیں ہے اور موجودہ گورنر حکومت کے چیف سکریٹری نے بھی کل ہی یہ بات واضح کی کہ دفعہ 35-A کیس کی پیروی عوامی حکومت ہی کر سکتی ہے اور گورنر انتظامیہ اس معاملہ پر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی ہے۔
انہوں نے کہا گیا کہ آئین ہند کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو جو خصوصی آئینی پوزیشن حاصل ہوچکی ہے اس کے تحت غیر ریاستی باشندوں کی دراندازی پر قانونی پابندی آج تک عاید چلی آرہی ہے ۔اب جار حانہ طور پر سپریم کورٹ کے ذریعہ غیر ریاستی باشندوں کو جموں و کشمیر میں بسانے کا راستہ ہموار کرنے کی مہم جوئی شروع ہو چکی ہے ۔جو بھی ہو لیکن اس میں جہاں کانگریس چناﺅ میں حصہ لینے سے ننگی ہو گئی اور اپنی سازشوں سے باز نہیں آرہی ہے۔وہیں ایک ایک کر کے بی جے پی کے سارے مہرے بھی بے نقاب ہو گئے ،پہلے 35-A کو ہٹا نے کے لئے آر ایس کی پشت پناہی سے سپریم کورٹ میں جو عذرداری داخل کی گئی ہے
انہوں نے کہا کہ اس کے خلاف سی ایس کی کارڑی نیشن کمیٹی کے علاوہ کئی دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی کشمیر اور جموں سے ماسوائے کانگریس کے 35-A کے بچاﺅ میں کئی عذرداریاں داخل کی ہیں۔ستم بالائے ستم یہ کہ اب بی جے پی نے اپنے اغراض کی تکمیل کے لئے اپنی پارٹی کے ایک سینئر لیڈر اور وکیل شری اشونی کمار اپادھیائے اوراب مزید 2 دو وکیلوں ایڈوکیٹ وجے شرما اور ایڈوکیٹ سندیپ لامبا نے سپریم کورٹ میں دفعہ 370 کو آئین ہند سے خارج کرنے کی درخواست دی ہے اور ریاست کے آئین کو بھی چلینج کیا ہے ساتھ ہی آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت نے بھی اپنی کشمیر دشمنی کا کھل کر اظہار کیا ہے اس طرح ریاست کی الگ شناخت ،خصوصی پوزیشن اور سٹیٹ سبجکٹ قانون ختم کرنے سے متعلق سیاسی منظر نامہ بدلنے کی پیشقدمی ہو رہی ہے جونئی نسل کے بیٹوں اور بیٹیوں کے لئے تباہ کن صورت حال پیدا کرنے کا باعٹ بن رہی ہے۔
ان کا کہناتھا کہ اس لئے ریاست کی علاقائی جماعتوں اور ہر ایک فرد بشیر ہندو، مسلمان ،سکھ ،عیسائی اور بودھ پر ذمہ داری عائید ہوتی ہے کہ ایک تو وہ ہونے والے میونسپل اور پنچایتی چناﺅ کا بائیکاٹ کریں اور ساتھ ہی احتجاج کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اپنے ضمیر کو جگائے رکھیں ۔
رابطہ کمیٹی کے ممبران مظفر شاہ ،ایڈوکیٹ میر جاوید ،نائیب مفتی اعظم ناصر الاسلام اور سکھ کارڑی نیشن کمیٹی کے چیر مین سردار جگموہن سنگھ رینہ نے مزیدکہ ریاست میں ان لوگوں کے ساتھ سماجی تعلقات بنائے رکھنے کی کوئی گنجائیش نہیں رہتی ہے ۔جو آر ایس ایس کی حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں ملوث ہوں گے۔ان ابتر حالات میں جو کوئی بھی ووٹر یا امید وار چناﺅ میں حصہ لیگا اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ وہ اپنے آپ کو جموں و کشمیر کا باشندہ تصور نہیں کرتا ہے۔
Comments are closed.