سماجی ویب سائٹس کا استعمال۔۔لمحہ فکریہ

عصر حاضر میںمواصلاتی اور انٹرنیٹ کی سہولیات میسر ہیں اور لوگ بے تکلف ہر خطے کے لوگوں کے ساتھ دوستی جوڑ سکتے ہیںاس سے عرب وعجم کی مسافت بھی قربت میں تبدیل ہوئی اورگلوبل دنیا ایک مٹھی میں آگیا ہے۔ ان وسائل کوبروئے کار لاکر لو گ آرام اور راحت محسوس کرتے ہیں اس کے علاوہ ان وسائل سے انسان ہر طرح کے علوم و فنوں کا بخوبی اور بہ آسانی مطالعہ کرسکتا ہے اور ہر طرح کے معاملات کا حل بھی نکال سکتا ہے اس طرح سے یہ آسانی اور سہولیات فراہم کرنے والے سائنس دان واقعی مبارک بادی کے مستحق ہیں اور یہ قوم ان کی اس محنت و مشقت کی مرحون منت ہے لیکن بدقسمتی کی وجہ سے یہ سہولیات جاہل اور حیوان صفت انسانوں کے ہاتھوں میں آگئے ہیں جنہوں ان کا غلط استعمال کرکے ان وسائل کو معاشرتی تباہی کاموجب بنادیا۔ دورحاضر میں انسان اپنے حقیقی وجود سے ناآشنا ہورہا ہے اور انسان میں حیوان صفات پیوست ہورہے ہیں۔مواصلاتی وسائل یعنی فون جس نے انسان کوایک دوسرے کے کافی نزدیک لایا۔لیکن اس کا غیر ضروری استعمال کرکے سماج میں نئے قسم کے فتنوں کو جنم دیا اور مواصلاتی کمپنیوں کی جانب سے مخصوص رعایتی کالوں اور انٹرنیٹ سہولیات نے جہاں انسان کو مختلف الخیال لوگوں سے ملنے اور جڑنے کا موقعہ فراہم کیا وہیں اس کے مضر اثرات بھی سامنے آرہے ہیں
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہر مذہب و مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ پردہ داری کے ساتھ رہتے تھے لیکن نئی نسل نے فون کو استعمال میں لا کراس پردہ داری کویکسرختم کیا۔جس سے انسانیت شرمسار ہوجاتی ہے۔اسی طرح سے انٹرنیٹ کی سماجی وئب سائٹس جیسے فیس بک ، واٹس اپ ،ٹیویٹر،سکائے اپ اور میسنجر کاایساغیر ضروری ااستعمال کیا جاتا ہے جو ہر صورت میں انسانیت کے منافی عمل ہے
سوشل میڈیا کی ان ویب سائٹس کے ذریعے خود ساختہ صحافی بھی بن گئے ہیں جب اور جہاں وہ چاہئے اک آں میں کسی بھی ذی عزت شخص کی عزت خاک میں ملاسکتے ہیں اور یہ فتنے آئے روز ہمارے سامنے سے گذرتے ہیں المیہ یہ ہے کہ ان سائٹس کےذریعے لڑکیوں کے فوٹو اپ لوڈ کئے جاتے ہیں یا لڑکیاں بذات خود اپنے برہنہ فوٹو اپ لوڈ کر کے سماج میں بے حیائی اور بے راہ روی کو فروغ دے رہی ہیں۔حالانکہ والدین اپنے بچوں کو یہ سہولیات اس لئے فراہم کرتے ہیں تاکہ ان کے بچے زمانہ حاضر کے چلینجوں کا آ سانی سے مقابلہ کرسکیں۔ نافرمان اور بے حیاء نوجوانوں نے ان سہولیات کا غلط استعمال کرنے میں کوئی پس وپیش نہیں چھوڑا۔ٹھیک ہے کہ والدین نے اپنے ان نور چشموں کو یہ سہولیات فراہم کئے لیکن جب انہوں نے ان سہولیات کو غلط استعمال میں لایا تو والدین یہ جان کر بھی خاموش تماشائی کیوں بیٹھے ہوئے ہیں ؟یہاں تک ہمارا سماج اوپر سے نیچے تک بس معاشی اورنفسیاتی حیوانوں کا جتھا بن گیا اورہرطرح سے انسانیت کے اصول وضوابط پامال ہورہے ہیں۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر ان ذرائع کاغیر ضروری استعمال ہورہا ہے ان سماجی بے راہ رویوں کا اثر براہ راست وادی کشمیر پر بھی پڑا ہوا ہے اس وادی میں بے راہ روی نے ایسا جال بچھایا ہے کہ ہر طرح بے اطمینانی سی کیفیت طاری رہتی ہے اور ہر سو بے حیائی کے منظر دکھائی دے رہے ہیں۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ جو سیلاب اْمڈ آیا ہے اسکو روکنے کیلئے انفرادی اور اجتماعی طور اٹھ کھڑا ہونا ہے بالخصوص والدین کو اس میں اہم رول ادا کرناہے اور سماج کے دانشوروں ،مذہبی پیشوائوں اور مفکروں کو واعظ وتقریر کے ساتھ ساتھ عملی میدان میں آناچاہئے اور لائحہ عمل ترتیب دیکر ان بے راہ رویوں کیخلاف مہم کا آغاز کریں۔سرکاری طورطلبہ پر وئب سائٹس کا غیر ضروری استعمال کرنے کیلئے جاری شدہ احکامات کو بروئے کارلاکرپابندی عائد کرنی چاہئے اور اسکولوں ،کالجوں میںموبائیل فون اگر استعمال کئے جائیں تو نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے جانچ پڑتال کی جائے تو عین ممکن ہے کہ ہمارا سماج ایک بار پھر صیح ڈگر پرآجائے گا۔

Comments are closed.