وادی کشمیر اور موجودہ حالات

دنیائے انسانیت میںجنت بے نظیر کے نام سے پہچانے والی وادی کشمیرمیں موجودہ حالات اس قدر کشیدہ اور سنگین ہیں کہ لوگوں کا جینا محال بن گیا ہے ۔ہر خاص و عام اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے ۔ان دگر گوں حالات کے بیچ وادی میں رہائش پذیر لوگوں کی زندگی کاایک ایک لمحہ تنگ و تلخ دکھائی دیتا ہے اور ایسا کوئی دن نہیں ہوتا ہے جب کسی نہ کسی شخص کی ہلاکت کا معاملہ اخبارات یا الیکٹرانک ٹرانسمشن میں سرخیوں کی زینت بنتا رہتا ہے لیکن یہ پتہ لگانا بہت ہی پیچیدہ اور سنگین نوعیت اختیار کرتا ہے کہ قاتل نے کس گناہ کی پاداش میں قتل کیا ہے اور مقتول کی ہلاکت پر اس کے رشتہ دار ،حق وہمسایے اور دوست واحباب شش و پنج میں پڑ جاتے ہیں کہ مارے گئے شخص کا سماجی ریکا رڑ تاباںاور تابناک ہوتا ہے اور اس کے مارنے کے پیچھے کیا راز ہے ؟عام انسان دھنگ رہ جاتا ہے ۔ اگر چہ سرکاری سطح پر باریک بینی سے تحقیقات کرنے کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے اور انکوائری ٹیم بھی مقرر کی جاتی ہیں۔ لیکن زمینی سطح پر آج تک کسی قاتل کی نقاب کشائی نہیں کی گئی اور یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ مقتول کو کس گناہ کی پاداش میں قتل کیا گیا ہوتا ہے ۔اسلح بردار کے ساتھ اسلحہ برداروں کی تصادم آرائی ایک فطر ی تقاضا ہے لیکن عام و نہتے انسانوں کو مارنے کی سند حاصل کرنا انسانیت سوز اور غیرجمہوری طرز عمل ہے اور ان حربوں سے امن و امان میں خلل پڑتا ہے ۔ فساد و فطور جنم لیتا ہے اور اس کے منفی نتائج سامنے آتے ہیں ۔ گذشتہ تین دہائیوں سے بالخصوص وادی کشمیر میں ہر نکڑ پر فوجی چھاونیاں قائم ہیں۔ اگر چہ مرکزی وزارت دفاع نے عسکریت پر قابو پانے کیلئے فوج کی مختلف کمپنیاں تعینات کی تھیں لیکن یہ بھی عام لوگوں کیلئے ہی پریشا نی کا باعث بن چکاہے حالانکہ فوج یا پولیس ہر محاز پر عوام کے تحفظ کیلئے تعینات ہوتا ہے لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے ۔کیونکہ اب اس خطے میں بالخصوص اس حوالے کافی خوفزدہ ہیں حالانکہ دوسری ریاستوں یاملکوں میںفوج یا پولیس کے ہوتے ہوئے عام انسان اپنی حفاظت کویقینی تصور کرتا ہے لیکن یہاں کا انسان عدم تحفظ کا شکار ہوا اور اب ہر کوئی انسان اس وقت شش پنچ میں پڑجاتا ہے جب کسی عام شہری کو قتل کیا جاتا ہے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جن کے لخت جگر ان سے جدا کئے جاتے ہیں لوگ کئی دنوں تک وائے ویلا اور نعرہ بازی کرتے ہیں لیکن چند ہی دن گذرنے بعد ان کے اہل وعیال کا خدا ہی حافظ رہتا ہے ۔بے شمار کنبے کسمپرسی کی حالت میں پڑچکے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔بہت وقت بیت جانے کے بعد بھی ان کوانصاف نہیں ملا اور نہ ہی مقتولین کے درددلوں کے زخموں کا مدوا کیا گیا وہ آج تک اس طاق میں بیٹھے ہیںکہ ان مقتولین کے قاتلوں کو کب بے نقاب کیاجائے ۔بہرحال بے گناہوں کا قتل عام جاری اوراس بارے میں ہرکوئی بے بس ہے ۔لیکن یہ صورتحال سنگین رخ اختیار کرسکتا ہے کیونکہ جن کے والدین یا جن کے لخت جگر بے گناہ مارے گئے ان کے دلوں میں پائی جانے والی ناراضگی کبھی لاوا بن کر پھٹ جائے گا ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکارفاسٹ ٹریک بنیادوں پربے گناہوں کے قاتلوں کوبے نقاب کرکے ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔تاکہ مقتولین کے زخموں کی مرہم پٹی ہوسکےاور عام لوگوں کو قتل کرنے کا یہ سلسلہ بند ہوجائے اور کے مال وجان کا تحفظ یقینی بن جائے

Comments are closed.