کٹھوعہ آبروریزی معاملہ:بچی کی موت عصمت دری اور گھٹن سے ہوئی تھی

ڈاکٹروں کی رپورٹ عدالت میں پیش: استغاثہ کا کیس مزید مضبوط
جموں،:بدنام زمانہ کٹھوعہ آبروریزی وقتل معاملہ کی پٹھانکوٹ ضلع سیشن کورٹ میں یومیہ بنیادوں پر ٹرائل جاری ہے۔ اب تک 54گواہان کی جرح کا عمل مکمل کیاجاچکاہے۔اس بیچ کٹھوعہ آبروریزی کیس میں ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے جس سے استغاثہ کا کیس کافی مضبوط ہوگیاہے۔ ذرائع نے بتایاکہ میڈیکل کالج جموں کی ڈاکٹروں کی ٹیم نے رپورٹ کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ڈاکٹر تیجوندر کی عدالت میں پیش کیاگیا جس میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ رسانہ کٹھوعہ کی 8سالہ بچی عصمت دری اور گھٹن کی وجہ سے ہلاک ہوئی۔ میڈیکل بورڈ پولیس کی درخواست پر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے تشکیل دیاتھا۔ کٹھوعہ اسپتال کی میڈیکل آفیسر، جومیڈیکل بورڈ کی تین نفری ٹیم میں شامل تھی، اس کیس کی کلیدی گواہ ہے۔ ان کے ساتھ جو دیگر دو ڈاکٹران میں ڈاکٹر مدھو ڈینگر اور ڈاکٹر مکل ابوٹ شامل ہیں۔ میڈیکل بورڈ میں شامل تینوںڈاکٹروں نے اس معاملہ کی نسبت جو طبی رپورٹ تیار کی اس سے گذشتہ روز عدالت میں پیش کیاگیا جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ مذکورہ بچی کی موت عصمت ریزی کے دوران گھٹن کی وجہ سے ہوئی۔ ریاستی پولیس کے کرائم برانچ نے پہلے ہی فارنسک جانچ کے ذریعہ رپورٹ تیار کی تھی جس میں یہ کچھ بتایاگیاتھا اور یہ رپورٹ بھی عدالت میں پہلے ہی پیش کی گئی ۔ اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر جے کے چوپڑہ نے یو این آئی کو بتایاکہ ڈاکٹروں کے بیان نے استغاثہ کے کیس کو مزید مضبوط کر دیا ہے اور وہ کرائم برانچ کی طرف سے پیش کئے گئے ثبوت وشواہد سے مطمئن ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ جن ڈاکٹروں نے بچی کا پوسٹ مارٹم کیاتھا ، انہوں نے حالیہ دنوں چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کورٹ کے سامنے بیان قلمبند کرایا ہے۔ذرائع نے یو این آئی کو بتایاکہ 54گواہان کی جرح ہوچکی ہے اور مزید 30سے35اہم گواہان کی جرح مکمل کرنے کے بعد جج اس پر فیصلہ سنا سکتا ہے۔اگر چہ گواہان کی تعداد350سے زائد ہے لیکن اس میں زیادہ اہم صرف 70سے85تک ہی ہیں جن کی جرح کے بعد جج فیصلہ سنانے کا مجاز ہے اور متوقع ہے کہ ایسا ہی ہو۔ یاد رہے کہ ضلع کٹھوعہ کے تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گاو¿ں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی جو کہ گجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھتی تھی، کو 10 جنوری 2018کو اُس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو چرانے کے لئے نذدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی لاش 17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔ کرائم برانچ پولیس نے گذشتہ ہفتے واقعہ کے سبھی 8 ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کیا۔ کرائم برانچ نے اپنی تحقیقات میں کہا ہے کہ آٹھ سالہ بچی کو رسانہ اور اس سے ملحقہ گاو¿ں کے کچھ افراد نے عصمت ریزی کے بعد قتل کیا۔ استغاثہ کے مطابق متاثرہ بچی کے اغوا، عصمت دری اور سفاکانہ قتل کا مقصد علاقہ میں رہائش پذیر چند گوجر بکروال کنبوں کو ڈرانا دھمکانا اور ہجرت پر مجبور کرانا تھا۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ کمسن بچی کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیاتھا جہاں اسے نشہ آور ادویات کھلائی گئیں اور قتل کرنے سے پہلے اسے مسلسل درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔مقدمے کے ملزمان میں واقعہ کے سرغنہ اور مندر کے نگران سانجی رام، اس کا بیٹا وشال، ایس پی او دیپک کھجوریہ، ایس پی او سریندر ورما، سانجی رام کا بھتیجا وشال، وشال کا دوست پرویش کمار منو، تحقیقاتی افسران تلک راج اور آنند دتا ہیں۔ کیس کی ایک سماعت 16 اپریل کو سیشن جج کٹھوعہ سنجیو گپتا کی عدالت میں ہوئی تھی ۔ نابالغ ملزم کو چھوڑ کر جن 7 ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا، نے جج موصوف کے سامنے اپنے آپ کو بے گناہ بتاتے ہوئے نارکو ٹیسٹ (جھوٹ پکڑنے والا ٹیسٹ) کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم متاثرہ کی فیملی کی جانب سے کیس کو چندی گڑھ منتقل کرنے کےلئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے اپنی پہلی سماعت میں کیس کی کٹھوعہ عدالت میں سماعت پر روک لگائی تھی۔عدالت عظمیٰ نے 7مئی2018کو آٹھ سالہ بچی کے اغوائ، اجتماعی عصمت ریزی اور بہیمانہ قتل معاملہ جانچ سی بی آئی سے کرانے کی عرضی مسترد کرتے ہوئے کیس کی سماعت کٹھوعہ سے پٹھانکوٹ کی عدالت میں منتقل کرنے کی ہدایت دی تھی۔9جولائی 2018کو عدالت عظمیٰ نے ملزمین کو کٹھوعہ جیل سے پنجاب ریاست کی گرداس پور جیل منتقل کرنے کا حکم صادر کیاتھا۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی قیادت والی بنچ نے اسی روزی پٹھانکوٹ ضلع سیشن جج تیجندر سنگھ اور خصوصی سرکاری وکلاءکو معقول سیکورٹی فراہم کرنے کا بھی حکم صادر کیاتھا۔ پٹھانکوٹ میں ہی پولیس نے ایک ضمنی چالان بھی پیش کیا جس میں132گواہان ہیں۔یواین آئی

Comments are closed.