اسلام آباد: ملک کے 21ویں وزیر اعظم کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف کے درمیان مقابلہ آج ہوگا۔
قائد ایوان کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس دوپہر ساڑھے تین بجے شروع ہوگا، جہاں نئے وزیر اعظم کا انتخاب کیا جائے گا۔
نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے 342 ارکان کے ایوان میں 172 ارکان کی واضح اکثریت ملنا ضروری ہے، تاہم اس مرتبہ ایوان میں اب تک 330 ارکان کی تعداد موجود ہے اور اگر آج کے اجلاس میں تمام ارکان موجود ہوتے ہیں تو واضح اکثریت کے لیے ارکان کی تعداد کم ہوجائے گی۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے ڈویژن کے ذریعے رائے شماری ہوگی، جس میں عمران خان کے حامی ایک طرف جبکہ شہباز شریف کے حامی دوسری طرف ہوں گے۔
قائد ایوان کے انتخابات کے لیے قومی اسمبلی میں اگر پارٹی پوزیشن دیکھی جائے تو پاکستان تحریک انصاف سرفہرست ہے اور عمران خان کے وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہے۔
قومی اسمبلی میں نمبر گیم
ایوان زیریں میں تحریک انصاف سرفہرست ہے اور ان کی جنرل نشستوں کے ساتھ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشسیں ملا کر151 نشستیں ہیں۔
تاہم وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے مطلوبہ ارکان کی تعداد تک پہنچنے کے لیے تحریک انصاف کو اپنے اتحادیوں کی ضرورت ہوگی، جس کے لیے وہ پہلے ہی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کے 7، مسلم لیگ (ق) کے 3، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے 3، بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے 5، بی این پی کے 5 اراکین، عوامی مسلم لیگ کے ایک، جمہوری وطن پارٹی کے ایک رکن اور 4 آزاد ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل کرچکی ہے۔
اگر انتخاب کے وقت یہ تمام ارکان کے ووٹ کو تحریک انصاف کے حق میں شامل کیا جائے تو وزیر اعظم کے امیدوار عمران خان کے ووٹوں کی عددی حیثیت 180 تک پہنچ سکتی ہے اور وہ باآسانی منتخب وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔
دوسری جانب قومی اسمبلی میں نشستوں کی بات کی جائے تو مخصوص نشستوں کے ساتھ مسلم لیگ (ن) 81 اراکین کے ساتھ دوسری جبکہ پیپلز پارٹی 53 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، اس کے ساتھ ساتھ متحدہ مجلس عمل قومی اسمبلی میں ایک اقلیتی نشست اور 2 خواتین کی نشستیں حاصل کرکے 15 نشتیں حاصل کرچکی ہے جبکہ اے این پی کا ایک رکن قومی اسمبلی میں موجود ہے۔
تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے ساتھ گرینڈ اپوزیشن میں شامل پیپلزپارٹی وزیر اعظم کے لیے شہباز شریف کو ووٹ دینے سے انکار کردیا۔
پیپلز پارٹی کا شہباز شریف کو ووٹ نہ دینے کا فیصلہ
قائد ایوان کے انتخاب سے قبل ایک اہم موڑ آیا، جب پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے انتخاب میں شہباز شریف کو ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی زیر صدارت اجلاس کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ پی پی قیادت نے شہباز شریف کو وزیراعظم کا امیدوار نامزد کرنے پر تحفظات سے متعلق مسلم لیگ (ن) کو آگاہ کیا تھا، تحفظات دور نہ ہونے کی صورت میں وزیراعظم کے لئے ہونے والے ووٹنگ کے عمل کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا گیا۔
ادھر دینی جماعتوں کے سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعت اسلامی نے بھی مرکزی مجلس شوری کے اجلاس کے بعد وزیراعظم کے انتخاب کے لیے کسی امیدوار کو ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
جماعت اسلامی کے سیکریٹری اطلاعات قیصر شریف کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’جماعت اسلامی کسی سیاسی جماعت کو کندھا دینے کے بجائے اپنی نظریاتی لڑائی خود لڑے گی‘۔
اس تمام صورتحال کے بعد مسلم لیگ(ن) کے وزیر اعظم کا انتخاب جیتنا مزید مشکل ہوگیا اور پیپلز پارٹی 53 نشتیں کم ہوجانے کے بعد ہم خیال جماعتوں کے ارکان کو ملا کر بھی ان کے پاس 100 ارکان بھی موجود نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسد قیصر قومی اسمبلی کے اسپیکر، قاسم سوری ڈپٹی اسپیکر منتخب
ایسی صورتحال میں یہ بات واضح ہے کہ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے انتخاب میں عمران خان واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
ایوان زیریں میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب
خیال رہے کہ قومی اسمبلی کے گزشتہ اجلاس میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کیا گیا تھا، جس میں تحریک اںصاف کے امیدوار اسد قیصر بطور اسپیکر جبکہ قاسم سوری ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے تھے۔
قومی اسمبلی میں اسد قیصر نے 176 ووٹ جبکہ ان کے مدمقابل پیپلز پارٹی کے امیدوار خورشید شاہ کو 146 ووٹ حاصل ہوئے تھے، اس طرح اسد قیصر نے 30 ووٹوں کی برتری سے اسپیکر منتخب ہوئے تھے۔
ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب میں تحریک اںصاف کے امیدوار قاسم سوری کو 183 ووٹ ملے جبکہ اپوزیشن اتحاد کے امیدوار اسد محمود نے 144 ووٹ حاصل کیے تھے۔
وزیر اعظم کا انتخاب کس طرح ہوتا ہے؟
قومی اسمبلی میں رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس 2007 کے دوسرے شیڈول کے مطابق وزیر اعظم کا انتخاب اراکین قومی اسمبلی کی جانب سے کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کے ایک اسلامی جمہوریہ ہونے کی وجہ سے حکومت کے سربراہ کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔
وزیر اعظم کے انتخاب میں حصہ لینے والے امیدوار کو انتخاب سے ایک روز قبل دوپہر 2 بجے تک کاغذات نامزدگی جمع کرانے ہوتے ہیں، جس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی ان نامزدگیوں کا تعین کرتے ہیں۔
اگر کوئی امیدوار انتخاب سے قبل اپنے کاغذات نامزدگی واپس لینا چاہے تو وہ کس بھی لمحے انہیں واپس لے سکتا ہے۔
تاہم ملک کے 21 ویں وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے صرف 2 امیدوار عمران خان اور شہباز شریف نے ہی کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے، جو منظور بھی ہوگئے تھے۔
قانون کے مطابق
’وزیر اعظم کے لیے ووٹنگ سے قبل اسپیکر کی جانب سے ہدایت دی جاتی ہے کہ 5 منٹ تک گھنٹی بجائی جائے تاکہ ایوان میں موجود نہ ہونے والے اراکین ایوان میں آسکیں، اس کے فوری بعد گھنٹی روک دی جاتی ہے اور اسمبلی اسٹاف لابی کے تمام داخلی اور خارجی راستے پر تعینات ہوجاتے ہیں اور ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے تک کسی کو آنے اور جانے کی اجازت نہیں ہوتی‘۔
اگلا مرحلہ
’قومی اسمبلی کے اسپیکر کی جانب سے نامزد امیدواروں کے نام کو اسمبلی ارکان کے سامنے پکارا جاتا ہے اور پھر دوسرے شیدول میں موجود طریقہ کار کے ذریعے انتخاب کا عمل آگے بڑھایا جاتا ہے‘۔
اس کے بعد
اسپیکر کی جانب سے اراکین اسمبلی سے کہا جائے گا کہ وہ اپنے پسند کے امیدوار کو ووٹ دینے کے لیے ایک داخلی مقام سے جاکر شمار کنند کے پاس اپنا ووٹ ریکارڈ کروائیں۔
اس کے بعد شمار کنندہ کی ڈیسک پر پہنچ کر ہر رکن اسمبلی وہ ڈویژن نمبر پکارے گا جو اسے قانون کے تحت دیا گیا ہوگا، جس کے بعد شمار کنندہ ڈویژن فہرست میں اس رکن اسمبلی کے نمبر پر نشان لگائے گا اور ساتھ ہی اس کا نام پکارے گا۔
ووٹ کے صحیح طریقے سے ریکارڈ کیے جانے کو یقینی بنانے کے لیے رکن اسمبلی تب تک اس جگہ سے واپس نہیں آسکے گا جب تک وہ شمار کنندہ کی جانب سے پکارے گئے اپنے نام کو واضح نہیں سن لیتا۔
ووٹ ریکارڈ کرانے کے بعد وہ رکن اسمبلی تب تک چیمبر میں داخل نہیں ہوسکے گا جب تک دوبارہ گھنٹی نہیں بجائی جاتی۔
آخر میں کیا ہوگا؟
مندرجہ بالا عمل مکمل ہونے کے بعد اسپیکر اسمبلی کی جانب سے اس بات پر اطیمنان کرنے کے بعد کہ تمام اراکین نے ووٹ ڈال دیا، وہ ووٹ کے اختتام کا اعلان کریں گے۔
اس کے ساتھ ہی سیکریٹری ڈویژن فہرست حاصل کرکے ووٹوں کی گنتی کریں گے اور نتائج اسپیکر کے سامنے پیش کیے جائیں گے، پھر اسپیکر کی جانب سے ہدایت دی جائے گی کہ 2 منٹ تک گھنٹی بجائی جائے تاکہ تمام ارکان چیمبر میں آسکیں، اس کے بعد گھنٹی روک دی جائے گی اور اسپیکر کی جانب سے نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔
پہلی مرتبہ ووٹ دینے کے بعد
اگر صرف ایک امیدوار مقابلہ کررہا ہوتا اور وہ مطلوبہ تعداد کے مطابق ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا تو اسپیکر کی جانب سے اس کے منتخب ہونے کا اعلان کیا جائے گا۔
تاہم اگر ایک ہی امیدوار ہو اور وہ ووٹ کی مطلوبہ تعداد حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو تمام کارروائی دوبارہ سے شروع کی جائے گی۔
اس کے بعد کا مرحلہ
اگر 2 یا اس سے زائد امیدوار ہوں گے اور کوئی امیدوار پہلی مرتبہ پولنگ میں واضح اکثریت حاصل نہیں کرپاتا تو دوسرے انتخاب میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے 2 امیدواروں میں مقابلہ ہوگا اور جو رکن قومی اسمبلی زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا اسے وزیر اعظم منتخب کرلیا جائے گا۔
تاہم اگر دو یا اس سے زائد امیدواروں کے درمیان ووٹنگ میں امیدواروں کے ووٹوں کی تعداد برابر ہوگی تو اس وقت تک دوبارہ پولنگ کی جائے گی جب تک ایک امیدوار اکثریت حاصل نہیں کرلیتا۔
Comments are closed.