موبائیل ایڈیٹروں اورنامہ نگاروں کی بھر مار ،عزت دار افراد کی عزت ریزی کرنے پر تلے ہیں ،کوئی جوابدہی نہیں ،سرکاری ایجنسیاں خاموش تماشائی
ناظم نذیر
ذرایع ابلاغ میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہوا کرتا تھا لیکن اب انٹرنیٹ کے ذریعے سوشل میڈیا بھی معرض وجود میں آیا ہے اگر چہ دنیا کی ترقی کایہ ا یک راز ہے کہ زمانہ کی تیز رفتاری کے ساتھ ساتھ انسان فاسٹ کیمونی کیشن کا خواہاں بن جاتا ہے لیکن بالخصوص پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات ،رسائل وجریدوں کیلئے ضابطے مرتب ہیں اور اخبارات کو ذرایع ابلاغ کا اہم جُز تصور کیا جاتا ہے ۔اخبار شائع کرنے کیلئے مالک ومدیران دھن ودولت داؤ پر لگانے کیلئے مجبور ہوجاتے ہیں کیونکہ اخبارات کی اشاعت پر غیر معمولی خرچہ آتا ہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ اخبارات کی اشاعت کے دوران مالکان اخبارات کو بے شمار تحقیقاتی ایجنسیوں کے عمل سے گذرنا پڑتا ہے اور جہاں وہ سرکار یا سرکاری ایجنسیوں کے پاس جوابدہ ہوتے ہیں وہیں عوامی سطح پر بھی جوابدہی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کیونکہ اخبارات شائع ہونے والی ہر کوئی خبر عوام اور سرکار کے درمیان پُل کی مانند ہوتی ہے اور اخبارا ت رابطے کا ذریعہ ہے۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر اخبار ات کے مدیران پرکسی بھی وقت خود غرضی کا بوت سوار ہوجاتا ہے تو وہ جب کوئی خبر کسی کے حوالے سے شائع کرتا ہے تو عوامی سطح پر یا سرکاری طور اس کو غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کسی کی ہتک عزت کرنے پر متعلقین معزز عدالتوں کے دروازے بغیر تامل و تحقیق کے کھٹکھٹاتے ہیں جبکہ اخبار میں کام کرنے والے ہر مدیر ،نامہ نگار اور دیگر عملہ کا تجربہ کار ہونا لازمی ہوتا ہے اور وہ اخباری دفاتر سے سندیافتہ ہوتے ہیں۔ برعکس اس کے ایک عام آدمی جس کے ہاتھ میں سیل فون ہوتا ہے خود ساختہ ایڈیٹر ،نامہ نگار اور صحافی بن بیٹھتا ہے اور بے لگام ہوکر عزت دار افراد کی بے عزتی کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں رکھتا ہے اور سوشل میڈیا کی مختلف ویب سائٹس بشمول وٹس اپ،فیس بُک ،مسینجر،انسٹوگراف ،ٹیویٹر ،پوٹل پر ایسی خبریں اورافواہیں پھیلاتے ہیں جن کا زمینی سطح پر کوئی وجود نہیں ہوتا ہے بلکہ حقیقت سے بعید خبروں کو منظر عام پر لایا جاتا ہے اور بیشتر اوقات ایسی خبریں وائرل کی جاتی ہیں جس سے ایک عزت دار شخص کی عزت اک آں میں خاک میں مل جاتی ہے ۔اب اس طوفانی میڈیا کی وجہ سے عام لوگوں کے ساتھ ساتھ سرکاری یا غیرسرکاری دفاتر میں بیٹھے افسران و ملازمین کا جینا محال بن گیا ہے کیونکہ ایک نام نہاد ایڈیٹر یا رپورٹر افسر کو دھمکی دیتا ہے کہ’’ میرا کام نہیں کیا تو سوشل میڈیا پر آپ کو بدنام کردوں گا اور کوئی بچانے والانہیں ملے گا ‘‘جس سے افسر دباؤ میں غرق ہوجاتا ہے اور غیرقانونی طور یاتو اس کے ہاں میں ہاں ملاتا ہے یا اپنی عزت کو داؤ پر لگاتا ہے ۔جہاں اخبارات جنکی اشاعت وترسیل پر کروڑوں روپے کا خرچہ آتا ہے ہر طرح اس کے مدیران جوابدہ ہیں تو سوشل میڈیا پر خبریں شائع کرنے والے نام نہاد ایڈیٹر یا نامہ نگاربے لگام کیوں ہیں؟ سرکاری ایجنسیاں جن پر عام آدمی کو تحفظ دینے کی ذمہ داری ہوتی ہے اس حوالے سے خاموش تماشائی کیوں بیٹھی ہیں؟اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جہاں افسران کی سوشل میڈیا کے ذریعے تذلیل کی جاتی وہیں مفت میں ان کوغیر ضروری طور آسمان پر چڑھا کر انکی زبان بندی کردیتے ہیں حالانکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے نیوز گروپ چلانے والے کسی طرح سرکاری طور تسلیم شدہ نہیں ہیں بلکہ یہ خود ساختہ ہیں اور المیہ یہ ہے کہ ایک گروپ سے جو بھی خبر وائر ل ہوتی ہے توگروپ چلانے والے نام نہاد ایڈیٹر و نامہ نگار دیکھے اور پڑھے بغیر اس کو اپنی نام نہاد سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلاتے ہیں حالانکہ خود ان کویہ معلوم نہیں ہوتا کہ خبر کہاں سے آئی اور خبر کا مدعا ومقصد کیا تھا ۔زمینی سطح پر اگر غور کیا جائے تو ان سوشل ویب سائٹس کی وجہ سے رشتے بھی محدود ہونے لگے ہیں کیونکہ بہن بھائی بھی اب اکھٹے چلنے میں ڈر محسوس کرتے ہیں کیونکہ کسی نام نہاد ایڈیٹر یا پورٹر کی نہ سننے پر اس کو سوشل میڈیا پر بدنام کرنے کا آسان ذریعے ہاتھ آگیا ہے ۔چونکہ دیہی علاقوں کے لوگوں کی زندگی ابھی بھی سادہ لوح ہے لیکن سوشل میڈیا ان کی سادگی کو بھی دوسرا نام دیکر عزت ریزی کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگ بغیر کسی تاخیر کے حالات وواقعات سے معلومات حاصل کرتے ہیں لیکن مجموعی طور اس کے منفی رجحانات کتنے ہیں وہ ہر ایک کیلئے چشم کشا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری سطح پر سوشل میڈیا چلانے کیلئے ایک لائحہ عمل ترتیب دیا جایا اور اصول وضوابطہ مرتب کئے جائیں ۔واضح رہے کہ گذشتہ ایک یا دوسال کے دوران اس طرح کے درجنوں نام نہاد ایڈیٹروں ،نامہ نگاروں اور فوٹوگرافروں کیخلاف ریاست بھر میں عدالتوں اور پولیس تھانوں میں کیس درج ہوئے ہیں لیکن ابھی تک کسی بھی ایڈیٹر ،نامہ نگار یا فوٹوگرافر کیخلاف کیفر کردار تک پہنچاکر کوئی سزا نہیں دی گئی ہے تاکہ دوسرے لوگ تنبیہ لیتے ہوئے نقلی اور جعلی وٹس اپ ایڈیٹر ،نامہ نگار اور دوسرے لوگ ایسے حرکات باز آسکیں
Comments are closed.