دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کا مستقبل کیا ؟
"ہم دفعہ 35A کا مکمل دفاع کریں گے ،خون بھی بہانے کےلئے تیار”…اہلیان کشمیر کا یک زبان نعرہ
شوکت ساحل
سرینگر:مزاحمتی جماعتوں کے بعد اب مین اسٹریم جماعتیں بھی یہ دعویٰ کررہی ہیں ،کہ زعفرانی جماتیں بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس ریاست جموں وکشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتی ہے ،جو کہ ہر گز قابل قبول نہیں .
مین اسٹریم علاقائی جماعتیں نیشنل کانفرنس ،پی ڈی پی ،مرکزی سیاسی جماعتیں جن میں کانگریس سی پی آئی (ایم) شامل ہے ،کے علاوہ جموں وکشمیر کی یک نفری سیاسی مین اسٹریم جماعتوں کا کہنا ہے کہ دفعہ 35 اے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ آگ کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے .
مزاحمتی قیادت ،مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ سیول سوسائٹی آئین ہند کی ایک ایسی دفعہ کے حق میں مظاہرے کر رہی ہے ،جو مسلم اکثریت کے مفاد کا تحفظ کر رہی ہیں۔آئین ہند کی دفعہ 35 اے کے تحت بھارتی شہریوں کو کشمیر میں زمینیں خریدنے، سرکاری نوکریاں حاصل کرنے، ووٹ ڈالنے اور دوسری سرکاری مراعت کا قانونی حق نہیں ہے۔
یہ دراصل دفعہ 370 کی ہی ایک ذیلی دفعہ ہے جسے 7 دہائیوں قبل دستور ہند میں شامل کیا گیا تھا۔1953 میں اُس وقت کے خودمختار حکمران شیخ محمد عبداللہ کی غیرآئینی معزولی کے بعد بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی سفارش پر صدارتی حکم نامے کے ذریعہ آئین میں دفعہ 35A کو بھی شامل کیا گیا، جس کی رُو سے بھارتی وفاق میں جموں کشمیر کو ایک علیحدہ حیثیت حاصل ہے۔
لیکن بھارت میں بی جے پی کا اقتدار قائم ہوتے ہی آر ایس ایس کی حمایت یافتہ این جی او جموں کشمیر سٹڈی سینٹر کے سربراہ آشوتوش بھٹناگر نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں اسی آئینی دفعہ کو چیلنج کیا۔ اب معاملہ زیرسماعت ہے اور سپریم کورٹ میں کل یعنی 6 اگست کو اسکی مجوزہ سماعت ہونے جارہی ہے ،اس سے قبل سپریم کورٹ آف انڈیا نے سابق ریاستی حکومت کو اپنے عذرات پیش کرنے کی ہدایت دی تھی.
مسلم اکثریتی جموں کشمیر میں بھارتی آئین کی اس دفعہ کو ایک حساس مسئلہ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ سیاسی اور سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگرسپریم کورٹ نے اس کے خاتمے کا فیصلہ سنایا تو کشمیر میں مسلم آبادی کا تناسب بدل جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ1947 میں جو چھ ہزار ہندو خاندان ہجرت کر کے بھارت آئے تھے، ان کی تعداد اب چار لاکھ تک پہنچ گئی ہے، قانونی بندش ہٹ گئی تو ان چار لاکھ ہندوں کے ساتھ ساتھ تمام فوجی اہلکاروں اور افسروں کو تین سالہ تعیناتی کے بعد یہاں مستقل شہریت دی جائے گی۔
مین اسٹریم جماعتوں، سماجی حلقوں اور مزاحمتی قیادت کو خدشہ ہے کہ حکمران بی جے پی کشمیر کے مسلم اکثریتی کردار کو ختم کر کے یہاں ہندوں کی بھاری تعداد کو آباد کروانا چاہتی ہے اور اس کے لیے دفعہ 35A ہٹا کر راہ ہموار کی جا رہی ہے۔
واضح رہے برٹش انڈیا کی تقسیم کے وقت پاکستان سے 60 ہزار ہندو مہاجرین بھارت آئے تھے، جنھیں جموں میں بسایا گیا۔ اس دفعہ کے ہٹنے سے اُن مہاجرین کو مستقل شہریت دی جائے گی جن کی تعداد اب چار لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
ان حلقوں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے اگر آئین کی اس دفعہ کو ختم کرنے کا فیصلہ سنایا تو سابق فوجیوں کی کالونیوں کی بے تحاشا تعمیر شروع ہو جائے گی اور فوجی اہلکاروں کو بھی مسلسل تین سالہ تعیناتی کی بنیاد پر کشمیر کی شہریت دی جائے گی۔
قابل ذکر ہے کہ جموں وکشمیر میں جب پی ڈی پی اور بھاجپا کی مخلوط سرکار تھی ،تو بھاجپا نے اقتدار میں رہنے کےلئے اس حساس معاملے پر خاموشی اختیار کی تھی .تاہم 19 جون 2018 کو جب حیرت انگیز طور پر بھاجپا نے پی ڈی پی سے سیاسی ناط توڑا تو ریاست جموں وکشمیر میں گور نر راج نافز ہونے کے ساتھ ہی بھاجپا بیان بازی کےلئے آزاد ہوگئی .
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے وادی کشمیر کی سیاسی جماعتوں سے کہا ہے کہ دفعہ 35 اے کے نام پر سیاست کھیلنا بند کی جائے اور رام عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے غلط بیانی سے کام نہ لیاجائے۔
پارٹی صدر دفتر واقع ترکوٹہ نگر جموں میں بی جے پی ریاستی ترجمان اعلیٰ سنیل سیٹھی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ وادی کشمیر کی سیاسی جماعتیں غیر ذمہ دارانہ بیانات کے ذریعہ اپنے مفادات کے لئے ماحول کو خراب کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ان جماعتوں کا دفعہ 35 اے پرجوموقف ہے وہ واضح طور پر قوم مخالف اور سماج مخالف ہے۔ سنیل سیٹھی نے کہا’یہ جماعتیں عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور یہ تاثر دیاجارہاہے کہ دفعہ 35 اے کو ہٹانا ریاست کے مفادات کے خلاف ہے، جوکہ بعید از حقیقت ہے، اس دفعہ سے عوام میں صرف نابرابری ہے۔ اصل میں یہ آرٹیکل ریاست کے مفادات کے خلاف ہے‘ ۔
ساڑھے تین سال تک بھاجپا کے ساتھ اقتدار میں رہنے والی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کا کہنا ہے کہ دفعہ 35 اے کو منسوخ یا کمزور کرنے کی کسی بھی کوشش کے انتہائی تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔
پارٹی ترجمان اعلیٰ رفیع احمد میر نے بتایا کہ جموں وکشمیر کے لوگ دفعہ 35 اے کے دفاع کے لئے یک جٹ ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا ’ہمیں امید ہے کہ دفعہ 35 اے کے حوالے سے فیصلہ ہمارے حق میں آئے گا۔ اگر اس کے ساتھ کوئی مداخلت ہوئی یا کمزور کرنے کی کوشش کی گئی، وہ ایک بڑی آفت کو دعوت دے گی۔ وہ ایک شب خون ہوگا۔ اس کے خلاف ہم سب کو میدان میں آنا پڑے گا‘۔
انہوں نے کہا ’مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ آج جموں وکشمیر کے تمام لوگ بشمول سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتیں اپنے باہمی اختلافات کو چھوڑ کر دفعہ 35 اے کے دفاع کے لئے یک جٹ ہوئے ہیں۔ کچھ روز قبل سول سوسائٹی کی طرف سے ایک رائونڈ ٹیبل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس میں پارٹی کی طرف سے میں اور نظام الدین بٹ صاحب شامل ہوئے تھے۔ ہم نے وہاں بھی اپنا موقف سامنے رکھا۔ میں خوش ہوں کہ لوگ دفعہ 35 اے کے لئے یک جٹ ہوگئے ہیں۔ جموں جہاں احتمال رہتا ہے کہ وہ الگ ہیں۔ وہاں وکلاءاور باقی لوگوں نے بھی کہا ہے کہ وہ اس دفعہ کے حق میں ہیں‘۔
دوسری جانب ریاست کی سب سے قدیم سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس جو قانونی طور پر جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن برقرار رکھنے کی جدوجہد مین محوہے ، کے جنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے کہا کہ دفعہ35 اے پر حملہ ریاست کی شناخت اور انفرادیت پر حملہ ہے یہی وجہ ہے کہ سماج کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والوں نے اس دفعہ سے متعلق ایک ہی موقف اختیار کر رکھا ہے۔ ہم اُن تمام سیاسی، سماجی اور مذہبی جماعتوں کے علاوہ سول سوسائٹی کا خیر مقدم کرتے ہیں جنہوں نے ریاست کی پہچان، انفرادیت اور اجتماعیت کے خلاف ہورہی سازشوں کے خلاف آواز بلند کی۔
ساگر نے کہا کہ عظیم قربانیوں اور جدوجہد کی بدولت ہی جموں وکشمیر کو ایک منفرد شناخت حاصل ہوئی اور ہم کسی کو بھی اپنی اس پہنچان اور سیاسی حقوق پر ڈاکہ زنی کرنے کی اجازت نہیں دیںگے ۔ انہوں نے کہا کہ مہاراجہ ہری سنگھ کے بھارت کے ساتھ مشروط الحاق کے بعد جموں وکشمیر کے رہنماﺅں اور نئی دلی کے درمیان مذاکرات چلے اور اس عمل میں جموں وکشمیر اور بھارت کے رشتے کے خدوخال اور آئینی و جمہوری طریقہ کار اختیار کیا گیا، جس کے بعد 1952میں جموں وکشمیر اور نئی دلی کے درمیان ایک سمجھوتہ پایا گیا اور آئین ہند میں دفعہ370کا اندراج عمل میں لایاگا ، جس سے یہ مشروط الحاق طے پایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ خصوصی پوزیشن کے نہ رہنے سے مشروط الحاق بھی خود بہ بخود ختم ہوجائے گا۔
نئی دلی پر ایک ”خاص مقصد“کیلئے دفعہ35 اے کی تنسیخ کا شوشہ چھوڑنے کا الزام لگاتے ہوئے عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ انجینئر رشید نے کہا ہے کہ نئی دلی کو یہ سمجھنے کی حماقت نہیں کرنی چاہیئے کہ کشمیری 35 اے کے شوروغوغا میں”اصل مسئلہ“کو بھولے نہیں ہیں۔مزاحمتی قیادت کو ”ہوش مندی“کا مظاہرہ کرنے کی صلاح دیتے ہوئے انجینئر رشید نے عام کشمیریوں کو بھی خبردار کرتے ہوئے کہا ہے”کشمیریوں کی منزل 35 اے اور 370کا دفاع کرنا نہیں بلکہ بیش بہا قربانیوں ، احساسات اور جذبات کے مطابق رائے شماری کے ذریعے جموں کشمیر کے تنازعہ کا حل نکالنا ہے“ ۔
ریاست بھر میں اس دفعہ کے دفاع میں ہڑتال کی جارہی ہے.ہڑتال کی کال متحدہ مزاحتمی قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے دے رکھی ہے جبکہ دیگر مزاحمتی جماعتوں، وادی کی تقریباً تمام تجارتی انجمنوں، سول سوسائٹی گروپوں، ٹرانسپورٹروں اور دیگر طبقوں کی نمائندگی کرنے والی تنظیموں نے اس ہڑتالی کال کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے دفعہ 35 اے کی سماعت کے لئے 6 اگست کی تاریخ مقرر کی ہے۔ تاہم وادی کشمیر میں سماعت سے قبل ہی تنائو کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ ایسے میں ساری نظریں کل ہونے والی سماعت پر ہیں .
Comments are closed.