امن کون نہیں چاہتا؟لیکن۔۔۔؟
ناظم نذیر
ریاست جمو ں وکشمیر کاہر ایک شعبہ موجودہ صورتحال کی وجہ سے متاثر ہوا ہے ۔یہاں اگر چہ لوگوں کے پاس وسائل ہیں کہ وہ اقتصادی اور معاشی طور خود کفیل ثابت ہوجائیں لیکن موجودہ حالات جو سنگین رخ اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ان حالات میں ہر کوئی وسیلہ بے کار ثابت ہورہا ہے کیونکہ وسائل کو بروئے کار لانے کیلئے امن وشانتی کا ماحول ہونا ضروری ہے ۔یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ ریاست بالخصوص وادی کشمیر میںیکے بعد دیگرے انسانی جانیں تلف ہورہی ہیں ۔ہڑتالوں ،احتجاجوں ،کرفیو،بندشوں اور آپسی تصادم آرائیوں سے ہر کوئی انسان سکون کھوچکا ہے اگرچہ وہ اقتصادی طور خود کفیل بھی کیوں نہ ہے لیکن اضطراب ہے ۔جہاں تک موجودہ حالات کا تعلق ہے تو ہر کسی کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر ان نامساعد حالات میں تبدیلی لانے کے لئے مثبت اور ٹھوس اقدام اٹھانے کی اشد ضرورت ہے ۔لیکن یہاں یہ کشمیری قول صادق آتا ہے ’’اکس رائو گائو کہنہ یوان اتھہ‘‘ کیونکہ یہاں کے حکمران ہوس اقتدار کے خاطر حالات کے تئیں آنکھیں چرا لیتے ہیں حالانکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان حالات کے نتائج مستقبل قریب میں منفی اوربھیانک سامنے آئیں گے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ’’ جو دن نکلے سو، واہ ،واہ ‘‘اسی طرح سے یہاں کے بیوروکیٹ ،دولت مند سے لیکر عام آدمی تک ہر ایک کیلئے موجودہ حالات چشم کشا ہیں اور ان حالات سے ہر کوئی متاثر ہے ۔اتناہی نہیں بلکہ یہاں کا ہر کوئی باشندہ کسی نہ کسی طرح ان حالات کی زد میں آیا ہوا ہے اور ان حالات کے دوران ایسے دلدوز واقعات پیش آرہے ہیں جن سے درد دل رکھنے والے انسانوں کے رونگھٹے کھڑا ہوجاتے ہیںاور ان واقعات سے آج تک جو لوگ بھی اپنے بچوں، اپنے لخت جگروں اور اپنے ظاہری سہاروں کو کھوچکے ہیں جن کے گھر اجڑ گئے ہیں ان کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے ۔ واقعات پیش آتے وقت لوگ وائے ویلا کرتے ہیں ،افسوس کرتے ہیں اور انسانی جذبہ کے تحت ان کی مدد کے لئے جدت اور نیک نیتی کے ساتھ سامنے آتے ہیں دل بہلائی کرتے ہیں ہر ممکن مدد کرنے کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں لیکن تعزیت کے دن گذرجا نے کے بعد ہی وہ لوگ اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں اور سرے سے ہی ان متاثرین وپسماندگان کو بھول جاتے ہیں ۔اس کے بنیادی محرکات یہ ہیں کہ یہاں کا ہر کوئی باشندہ ہرحال میں پریشان ہیں اور وہ دعوے صرف دعوئوں تک ہی محدود رہتے ہیں ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کسی عام شہری کے مرنے یا مارنے کے بعد فاسٹ انکوئری کا ڈول پیٹا جارہا ہے لیکن اب تک وہ سب سراب اور دھوکہ ثابت ہوئے کیونکہ آج تک نہ کسی قاتل کو سزا ملی اور نہ کسی مقتول کے لواحقین کو انصاف ملا۔ بلکہ ’’رات گئی تو بات گئی‘‘ کے مترادف حالات سامنے آتے ہیں ۔حالانکہ ان نامساعد حالات جن میں لوگوں کی قیمتی جانیں تلف ہورہی ہوں ،جہاں لوگوں کے حقوق سلب ہورہے ہوں کے انسداد اور تدارک کیلئے انتظامیہ وسرکا ر کو غور کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن ان حالات و واقعات کی طرف توجہ مرکوز کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جارہی ہے جس کے نتیجے میں حالات دن بہ دن بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری و انتظامی سطح پر ان حالات پر قابو پانے کیلئے بنیادی مسئلہ کو ایک لائحہ عمل کے تحت حقیقی پلیٹ فارم پر لایا جائے اور حقیقی نمائندوں کو حقائق سامنے لانے کا موقعہ فراہم کیا جائے تاکہ یہ جاری خون خرابہ بند ہوسکے ۔لوگوں کے حقوق کی پاسداری ہوسکے اور بنیادی مسئلہ کا حل بات چیت کے ذریعے ممکن بنایا جاسکے تب عین ممکن ہے کہ خطے میں امن قائم ہوجائے
Comments are closed.