ہم میں سے بہت سے لوگوں کو بعض اوقات صبح بیدار ہونے میں پریشانی ہوتی ہے۔ہمیں یہ خیال آتا ہے کہ ہم نے رات اچھی نیند کے مزے لیے کہ اچانک الارم بج اٹھتا ہے اور ہماری خواہش ہوتی ہے کہ بس پانچ منٹ اور سو لیں۔ ہم کراہتے ہوئے کروٹ لیتے ہیں۔
لیکن ویلز کی 42 سالہ لوسی ٹیلر کی یہی زندگی ہے وہ ہر دن اور ہر وقت اسی حالت میں ہوتی ہیں۔لوسی کو جگانے کے لیے دوا، کئی شور انگیز الارم کے علاوہ ان کے اہل خانہ کو بھی جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور یہ سب اس لیے ہے کہ انھیں نیند کی نادر بیماری ‘ایڈیوپیتھک ہاپر سومنیا’ ہے۔
ایڈیوپیتھک ہاپر سومنیا کیا ہے؟
اس نادر بیماری میں بہت زیادہ نیند آتی ہے یا یوں سمجھیں کہ نیند پوری ہی نہیں ہوتی ہے۔لوسی بتاتی ہیں کہ ‘یہ ایک ایسی حالت ہے جو میرے لمبے عرصے کے لیے سونے کا موجب ہے اور ہائپرسومنیا یعنی زیادہ نیند اس کا جز ہے جبکہ اڈیوپیتھک کا مطلب یہ ہے کہ اس کی وجہ کا علم نہیں ہے۔’
‘میں دن میں بہت تھک جاتی ہوں۔ نیند تازگی فراہم نہیں کرتی اور ایک بار جب میں سو جاتی ہوں تو پھر میرا اٹھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔”سب سے زیادہ دیر تک میں جمعے کی شام سے اتوار کی شام تک سوتی رہی۔’
‘گھر میں کوئی بھی مجھے جگانے کے لیے نہیں تھا۔ میں جمعے کو دفتر سے کام ختم کرکے آئی شام کی چائے کے وقت سونے چلی گئی اور اتوار کی سہ پہر کو جگی۔’لوسی کو روزانہ 12 سے 15 گولیاں لینی ہوتی ہیں تاکہ وہ صبح کو بیدار ہو سکیں اور دن بھر بیدار رہیں۔
اس کی علامات کیا ہیں؟
ماہرین کا خیال ہے کہ ہر ایک لاکھ میں سے دو شخص اس بیماری سے دوچار ہوتا ہے لیکن اس کی کیفیت کے بارے میں بہت زیادہ معلومات نہیں ہیں۔
اس کی علامات میں مندرجہ ذیل چیزیں شامل ہیں:
لوسی اپنی حالت کو کسی اذیت سے کم نہیں کہتی ہیں۔’ایسا لگتا ہے کہ میں پانی میں ہوں اور باہر نکلنا چاہتی ہوں۔ میں صرف تنہائی چاہتی ہوں۔ میں سونا چاہتی ہوں۔’
‘بہت سونے کی خواہش سے لڑنا بہت مشکل ہے اور پھر جاگ کر کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔’
گھر کے لوگوں پر انحصار
لیکن یہ لوسی کے اہل خانہ کے لیے بھی پریشانی کا باعث ہے۔
ان کی ماں سو کو ہفتے کے دنوں میں ان کے لیے رات کو جاگنا پڑتا ہے تاکہ وہ انھیں وقت پر دوا دے سکیں اور وہ وقت پر اٹھ کر کام پر جا سکے۔
سو کہتی ہیں: ‘مجھے اس کی ایسی حالت دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ اس بیماری سے پہلے وہ اچھی زندگی جی رہی تھی۔’اب وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کام کرتی ہیں لیکن اسے جگاتی نہیں ہیں اور یہ ان کی بیٹی کے لیے مایوس کن ہے۔
‘اگر میں یہاں ہوں تو میں اسے جگا دیتی ہوں اور ہم مل کر کام کرتے ہیں لیکن اگر میں نہیں ہوں تو وہ جاگ نہیں سکتی۔’
‘یہ کاہلی نہیں ہے’
‘کوئی بھی اسے نہیں سمجھتا، سب یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ کاہل ہے یا وہ بیدار ہونا ہی نہیں چاہتی۔ انھیں یہ خیال نہیں آتا کہ زندگی اس کے لیے کیسی جہد مسلسل ہے۔’
سو کہتی ہیں: ‘جب لوسی سو رہی ہوتی ہے تو اسے کوئی چیز بیدار نہیں کر سکتی۔’
سو نے لوسی کو جگانے کے لیے کئی تیز آواز والی الارم گھڑیاں لگا رکھی ہیں اور جب وہ ان سے بھی بیدار نہیں ہوتی تو وہ اس سے تیز آواز میں باتیں کرتی ہیں اور انھیں پیٹ پیٹ کر جگاتی ہیں۔
زندگی کو رواں دواں رکھنے کا عزم
‘مجھے اسے اس طرح زندگی گزارتے ہوئے دیکھنا اچھا نہیں لگتا۔ اس کے بارے میں بہت زیادہ تحقیق نہیں ہوئی ہے۔’
ہر چند کہ زندگی اپنے آپ میں روزانہ کی جدوجہد ہے لیکن سو اپنی بیٹی کے عزم کی تعریف کرتی ہیں:
‘وہ بہت ہی پرعزم لڑکی ہے۔ اور یہ اس کا عزم ہی ہے جو اسے لیے جا رہا ہے کیونکہ ایسی حالت میں جینا بہت دشوار ہے۔ وہ اس معاملے میں بھی خوش قسمت ہے کہ اسے ایسے اچھے ڈاکٹر ملے جو جنھوں نے اس کی بہت حد تک مدد کی ہے۔’
بشکریہ (بی بی سی اردو)
Comments are closed.