گردش ایام میں انسان پریشان

عصر حاضر میں عالمی سطح پر افراتفری اور بد امنی کا ماحول بنا ہوا ہے ہر سو انسانیت کے اصولوں کی پامالی ہورہی ہے اور انسان ہی وحشت اور دہشت پیدا کرکے کمزوروں ، بے آسرائوں اور مظلوموں پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔قتل وغارت گری اب روز کا معمول بن گیا ہے ۔جہاں انسان کو درد دل کے واسطے پیدا کیا گیا تھا وہیں یہ ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بن گیا ہے ۔انسان وحشی حیوانوں یا دوسرے خطرناک مخلوقات سے نہیں بلکہ انسان سے ہی ڈرتا ہے ۔گردش ایام میں انسان ہر اعتبار سے پریشان حال ہیں ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سیریا،فلسطین یا کشمیر ہو جہاں انسانی حقوق کی پامالی عروج پر ہے۔حد تو یہ ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی کرنے والے ہی اس رعیت کے حکمران ہیں اور اپنے لوگوں کو اپنانے کا بلند بانگ دعوے کررہے ہیں ۔لیکن زمینی سطح پر انہی کی پشت پناہی سے ان کی فورسز انسانوں کا قتل عام کررہی ہے اورنہتے لوگوں کو موت کے آغوش میں پہنچانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں ۔اپنے آقائوں کی خوشنودی اور اپنے حقیر مفادات کے خاطر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ۔عظیم اور قیمتی جانیں تلف ہورہی ہیں ۔گھروں کے گھر اجاڑ دئے جاتے ہیں ۔عصمتیں لٹی جارہی ہیں ۔ذی عزت شہریوں کو بے عزت کیا جارہا ہے ۔سر عام لوگوں کو پیٹا جارہا ہے ۔لوگ سکون اور آرام کھوئے ہیں ۔نجات کی راہ کسی کو نہیں دکھائی دے رہی ہے ۔جہاں ریاست جموں وکشمیر کے موجودہ صورتحال کا تعلق ہے کہ یہاںایک یا دو مسلح افراد کو مارنے کیلئے ہزاروں کی تعداد میں فوجی اہلکار وں کو مامور کیا جارہا ہے اور محاصرہ کرکے بندوقوں اور ماٹرشلوں کے ذریعے ان کو جان سے مار دیا جاتا ہے ۔اگر چہ حکومت کے اعلیٰ کاروں کی ہدایت کو عملی جامہ پہنانے کیلئے فوجی اہلکار عسکریت پسند کو مارنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیتے ہیں اور ترقی و انعام پانے کیلئے جان کی بازی لگا دیتے ہیں اس دوران فوجی اہلکار بھی جوابی فائرنگ میں جان بحق ہوجاتے ہیں ۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ فورسز اہلکار بھی اپنے والدین اور اپنی نئی پود کا سہارا ہوتے ہیں ۔گویا تصادم آرائی کے دوران جانیں تلف ہورہی ہیں ۔یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ اسلح برداروں کی آپسی لڑائی کا کوئی جواز ہے اور دونوں طاقت کے بل پرایک دوسرے کے ساتھ لڑ پڑتے ہیں لیکن اس دوران عام لوگوں پر فورسز جو ظلم و تشدد ڈھارہی ہے وہ انسانی حقوق کی صریحاًخلاف ورزی ہے جس کا کوئی جواز ہی نہیںہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکرہے کہ کشمیر کے حالات نے سنگین رخ اختیار کیا ہے اور عسکریت پسندوں کے ساتھ کشمیریوں کی ہمدردی بڑھتی جارہی ہے اوران کو مارے جانے کے بعد لوگوں کے جذبات مجروح ہوجاتے ہیں اور احتجاج پر اتر آتے ہیں لیکن اس کا یہ ہرگزمطلب نہیں ہے کہ فورسز ان پر گولیاں چلا کر ان کو جان سے ماردیں گے ۔احتجاج پر قابو پانے کیلئے طاقت کا نہیں بلکہ حکمت عملی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔طاقت کا بے تحاشہ استعمال کرنے سے جذبات اور زیادہ مجروح ہوجاتے ہیں اور حالات قابو سے باہر ہوجاتے ہیں اور فورسز حالات پر قابو پانے کیلئے بے تحاشہ فائرنگ اور ٹیئر گیس شلنگ کرتی ہے جس کے نتیجے میں درجنوںافراد زخموں کی تاب نہ لاکر دم تور بیٹھتے ہیں ۔جواپنے والدین کے لخت جگر اور اپنوں و پرایئوں کے ہمدم ہوتے ہیں کو داغ مفارقت دیکر ان سے جدا ہوجاتے ہیںجس سے ان پر قیامت ٹوٹ پڑ تی ہے یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ ان دلدوز اور المناک واقعات سے حالات دن بہ دن سنگین رخ اختیار کرتے ہیں جو امن و قانون کیلئے کسی بھی صورت میں مثبت ثابت نہیں ہوسکتے ہیں ۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ انتظامی سطح پر بنیادی مسئلہ کو ایڈرس کیا جائے تاکہ اس افراتفری کا خاتمہ ممکن ہوسکے اور امن قائم ہوسکے

Comments are closed.