سرینگر: کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے کہاہے کہ قبرستان کی خاموشی کو امن وسکون کا قرار دینا ،گویا خیالی جنت میں رہنے کے مترادف ہے ۔
انہوں نے کہا ’ کشمیریوں کی ناراضگی روز بروز بڑھ رہی ہے اور کسی نہ کسی موقع پر جابرانہ مرکز کو حتمی طور بات سمجھ آ جائے گی‘۔
موصولہ تحریری بیان کے مطابق کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے کہا کہ”کشمیر میں لوگوں نے مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کا وہ بیان دیکھا ہی ہوگا جس میں انہوں نے کہا کہ مرکزی سرکار کشمیر میں دہشت پسندوں کو ختم کرنے کےلئے روز بروز مزیدرقومات خرچ کر رہی ہے تاکہ کشمیر میں امن بحال ہو جائے۔
“۔ان کا کہناتھا ” میری نظر میں راج ناتھ سنگھ اور اُن کے ساتھیوں کی ”شانتی “ وہ حالت ہوتی ہے جس میں ایسی ہی خاموشی ہو جاتی ہے جیسے ”قبرستان “میں ہوتی ہے۔ گویا وہ صورت حال جس میں سطحی خاموشی تو ہو جاتی ہے ، مگر دلوں اور ذہنوں میں بے چینی اور اضطراب باقی رہتی ہے۔ “۔
انہوں نے کہا ”مگر کشمیر میں جو صورت حال فورسز نے پیدا کی ہے ، وہ راج ناتھ سنگھ کی سوچ کے برعکس ہے کیونکہ افسپاءجیسے کالے قانون کے استعمال سے جو قتل و غارت کا ماحول پیدا ہوا ہے ، اُس سے صرف قبرستان کی خاموشی ہی پیدا ہو سکتی ہے نہ کہ امن و سکون کا قرار ! “۔سابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے کہا ’اس طرح افسپاءکے استعمال سے جو قتل و غارت جاری ہے، اُس سے کشمیریوں کی ناراضگی روز بروز بڑھ رہی ہے اور کسی نہ کسی موقع پر جابرانہ مرکز کو حتمی طور بات سمجھ آ جائے گی۔ “
ان کا کہناتھا کہ راج ناتھ سنگھ جی کو اس پر غور کرنا چاہئے کہ کیا آخر ”جنرل صاحب کا ہی راستہ “ اُن کی منزل مقصود تک جاتا ہے ؟اُن کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ دنیا میں جہاں جہاں شورش پیدا ہو گئی تھی وہاں بندوق سے نہیں بلکہ گفت و شنید سے ہی مسئلہ حل ہو گیا تھا،ایسے ماحول میں دہلی کو کشمیر میں حالیہ دکھاوے کے بلدیاتی انتخابات سے کیا حاصل ہوا ؟ کم از کم مجھے معلوم نہیں اور گورنر صاحب نے حالیہ ایک بیان میں کہا کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات پر دہلی بہت خوش ہے !“۔
پروفیسر سوز نے مزید کہا کہ ریاستی گورنر کو اس بات کا نوٹس تو لینا ہی چاہئے تھا کہ بشمولیت نیشنل کانفرنس، جو ریاست کی مین اسٹریم میں سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے ، کے بائیکاٹ نے بلدیاتی الیکشن کو مضحکہ خیز صورت حال بنا دیا تھا ! کیا اسی پر دہلی خوش ہو گئی ہے!۔
Comments are closed.