افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پارلیمانی انتخابات کے لیے پولنگ کے دوران دھماکے رپورٹ کیے گئے ہیں۔
دھماکوں کے بعد ووٹ ڈالنے کے لیے قطاروں میں کھڑے عوام میں افراتفری مچ گئی اور لوگوں نے ووٹ کاسٹ کرنے کے بجائے بھاگ پر جان بچانے کی کوشش کی۔
افغان حکام کے مطابق پہلا دھماکا انٹیلی جنس آفیسر کی گاڑی کے نیچے لگے بم پھٹنے سے ہوا جب کہ دوسرا دھماکہ قره باغ پولنگ اسٹیشن کے باہر ہوا تاہم دھماکوں میں کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
خیال رہے افغان صوبے قندھاراورغزنی کے علاوہ افغانستان بھرمیں پارلیمانی انتخابات کے لئے پولنگ جاری ہے جب کہ پارلیمانی انتخابات کےساتھ ہی صوبائی کونسلوں کے انتخابات بھی ہورہے ہیں، افغانستان کی تاریخ میں پہلی بار بائیو میٹرک سسٹم استعمال کیا جا رہا ہے۔
ملک بھر میں افغان حکومت نے 54 ہزار سیکیورٹی اہلکار تعینات کئے ہیں،امریکی اور نیٹو فوج سمیت فضائیہ کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 32 صوبوں میں 90 لاکھ ووٹروں نے رجسٹریشن کرائی، مرکزی پارلیمان کی 232 نشستوں کیلئے 25 سو امیدوار میدان میں ہیں، جن میں 4 سو 47 خواتین امیدواربھی شامل ہیں ۔
افغانستان: حملوں کے خوف کے سائے میں پارلیمانی انتخابات
کابل: افغانستان میں طویل عرصے سے زیر التوا پارلیمانی انتخابات کا انعقاد آج ہو رہا ہے، جہاں پولنگ کا وقت شروع ہونے کے کئی گھنٹے بعد بھی متعدد پولنگ اسٹیشنز بند نظر آرہے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ‘اے ایف پی’ کے مطابق طالبان کے حملوں کے خطرے کے پیش نظر ووٹرز گھروں سے نکلنے میں خوف کا شکار ہیں، جبکہ بند پولنگ اسٹیشنز کے باہر لوگوں کی بڑی تعداد لمبی قطاروں میں کھڑی نظر آرہی ہے۔
پولنگ کے دوران ووٹر رجسٹریشن فہرستوں کی عدم موجودگی اور پہلی بار استعمال ہونے والی بائیومیٹرک ووٹر ویریفکیشن ڈیوائسز میں خرابیوں کی شکایات بھی سامنے آرہی ہیں۔
کابل میں ایک مسجد کے باہر ووٹ ڈالنے کے منتظر 42 سالہ مصطفیٰ نے بتایا کہ وہ ووٹ ڈالنے کے لیے جلدی یہاں پہنچے تاکہ جلد فارغ ہوکر واپس گھر جاسکیں، تاہم گھنٹوں انتظار کے بعد بھی پولنگ کا عمل شروع نہ ہوسکا۔
انہوں نے کہا کہ ‘ووٹ ڈالنے کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑے رہنے کے دوران ہمیں دہشت گردی کا بھی خطرہ ہے۔’
حکومت کے اعلیٰ عہدیدار نے افغان نشریاتی ادارے ‘طلوع نیوز’ کو بتایا کہ ‘کابل کے کئی علاقوں میں بیشتر پولنگ اسٹیشنز تاحال بند ہیں۔’
افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے نائب محمد محقق نے آزاد الیکشن کمیشن (آئی ای سی) کے حوالے سے کہا کہ ‘میں پچھلے ڈھائی گھنٹے سے انتظار کر رہا ہوں لیکن الیکشن کمیشن حکام کا کہنا ہے کہ انہیں اب تک ووٹر رجسٹریشن فہرست نہیں ملی۔’
عبداللہ عبداللہ کو بھی پولنگ سینٹر میں فہرست میں ان کا نام تلاش کیے جانے کے دوران تقریباً نصف گھنٹہ انتظار کرنا پڑا۔
افغان الیکشن کمیشن کے سربراہ عبدالبدیع سید نے ووٹنگ میں تاخیر پر عوام سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ووٹنگ کے وقت کو بڑھا دیا جائے گا۔
تین سال سے زائد عرصے تک تاخیر کا شکار رہنے والے پارلیمانی انتخابات میں تقریباً 90 لاکھ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔
طالبان نے اپنی حالیہ دھمکی میں ووٹرز پر زور دیا ہے کہ وہ ‘اپنی جانوں کی حفاظت کے لیے بناوٹی اور ڈرامائی عمل’ کا بائیکاٹ کریں۔
دو روز قبل جنوبی صوبے قندھار میں سخت سیکیورٹی کے باوجود طاقتور پولیس چیف کی ہلاکت کے بعد عوام کا پولنگ کے مقامات کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی فورسز کی صلاحیتوں پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔
اس حملے کے بعد قندھار میں پولنگ ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی گئی تھی، جس میں جنرل عبدالرازق سمیت 3 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ووٹنگ کے دوران شمالی شہر قندوز میں 3 راکٹ فائر کیے گئے، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
کئی صوبوں میں پولنگ اسٹیشنز کے قریب بم دھماکوں کی کئی رپورٹس بھی سامنے آئیں۔
جان کے خطرے کے باوجود افغان صدر اشرف غنی نے کابل میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد زور دیتے ہوئے کہا کہ ‘ہر افغانی، جوان اور بوڑھا، مرد و خاتون اپنے ووٹ کا حق استعمال کرے۔’
طالبان کی دھمکیاں
انتخابات کی تیاریوں کے دوران دہشت گردی کے کئی واقعات پیش آئے جن میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔
گزشتہ کئی دنوں کے دوران طالبان کی جانب سے متعدد بار دھمکیاں سامنے آئیں، جن میں انتخابی امیدواروں سے دستبردار ہونے اور ووٹرز سے گھروں میں رہنے کا مطالبہ کیا گیا۔
انتخابات میں 2 ہزار 500 سے زائد امیدوار حصہ لے رہے ہیں جن میں سے 10 مختلف حملوں میں ہلاک ہوئے۔
ان پارلیمانی انتخابات کو آئندہ سال ہونے والے صدارتی انتخاب کے لیے اہم اور نومبر میں جنیوا میں اقوام متحدہ کے اجلاس سے قبل اہم سنگِ میل قرار دیا جارہا ہے، جہاں افغانستان پر ‘جمہوری عمل’ میں پیشرفت دکھانے کے لیے دباؤ ہوگا۔
تاہم یہ خدشات بھی ظاہر کیے جارہے ہیں کہ بائیومیٹرک ویریفکیشن ڈیوائسز حملوں کے نتیجے میں ٹوٹنے یا تباہ ہونے کی صورت میں نتائج ضائع ہوجائیں گے۔
Comments are closed.