پاکستان کے 13ویں صدر کا انتخاب، پولنگ کا عمل شروع

پاکستان کے 13ویں صدر کے انتخابات کے لیے پولنگ کا عمل شروع کیا جاچکا ہے جس کی تیاریاں کل ہی مکمل کر لی گئیں تھی۔

صدارتی انتخاب میں سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین خفیہ رائے شماری کے ذریعے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کر رہے ہیں۔

انتخاب میں ریٹرننگ افسر کی ذمہ داری چیف الیکشن کمشنر جبکہ ملک کے پانچوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان پریزائیڈنگ افسر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مشترکہ طور پر جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں پولنگ کا آغاز ہوگیا جہاں اراکین اپنا حقِ رائے دہی استعمال کر رہے ہیں۔

پارلیمنٹ میں سسی پلیجو اعتزاز احسن اور شاہدہ اختر مولانا فضل الرحمٰن کی پولنگ ایجنٹس مقرر کی گئیں، جبکہ پولنگ عملے نے انہی کی موجودگی میں انتخابی مواد کھولا اور بیلٹ پیپرز دکھائے۔

بھاری اکثریت سے کامیاب ہوجاؤں گا، عارف علوی
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صدارتی امیدوار عارف علوی نے کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ وہ بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر لیں گے۔

اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہم تمام سیاسی جماعتوں سے رابطے میں رہے، جس کے بعد امید ہے کہ انہیں پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ اتحادی جماعتوں کے اراکین بھی ووٹ دیں گے‘۔

نامزد صدارتی امیدوار عارف علوی کا کہنا تھا کہ روٹی، کپڑا اور مکان میری ترجیحات میں شامل ہیں۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اراکین اپنے ضمیر کے مطابق صدارتی امیدوار کو ووٹ دیں۔

اس موقع پر صحافی کی جانب سے سوال کیا گیا کہ صدر ممنون حسین سے آپ کا کردار کس طرح مختلف ہوگا، تو اس پر انہوں نے جواب دیا کہ یہ ممنون حسین سے پوچھیں یا جب میرا وقت گزر جائے تب اس بارے میں سوال کیا جائے۔

صدارتی انتخاب کی تیاری
الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے پانچوں پریزائیڈنگ افسران کو ایک روز قبل ہی رائے دہندگان کی فہرستیں فراہم کردی گئیں تھی، جبکہ پولنگ اسٹیشنز قائم کرکے بیلٹ پیپرز بھی پہنچادیے گئے تھے۔

خیال رہے کہ تمام ایوانوں میں اراکین کی کل تعداد 11 سو 74 ہے تاہم کچھ حلقوں میں انتخابات ملتوی ہونے یا حلف نہ لینے کی وجہ سے صرف 11 سو 21 ارکین حقِ رائے دہی استعمال کر سکیں گے۔

آئندہ 5 سال کے لیے صدرِ مملکت کے انتخاب کا عمل آئین کے آرٹیکل 41 کے تحت عمل میں لایا جائے گا، جبکہ صدارتی امیدوار کی کم سے کم عمر 45 سال ہونا بھی ضروری ہے۔

بلوچستان کے 65 رکنی ایوان میں موجودہ ووٹوں کی تعداد 62 ہے، 124 رکنی خیبر پختونخوا اسمبلی میں ووٹ ڈالنے کے اہل ارکان کی تعداد 112 ہے۔

اسی طرح 168 رکنی سندھ اسمبلی میں ووٹ ڈالنے کے اہل ارکان کی تعداد 163 جبکہ 371 رکنی پنجاب اسمبلی میں ووٹ ڈالنے کے اہل ارکان کی تعداد 354 ہے۔

قومی اسمبلی اور سینٹ کے ساتھ ساتھ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے باہر رائے دہندگان کے لیے ہدایت نامہ بھی آویزاں کردیا گیا ہے جبکہ اراکینِ صبح 10 بجے سے شام 4 بجے تک اپنا ووٹ ڈالیں سکیں گے۔

صدارتی انتخاب کے لیے آئیڈیل الیکٹورل کالج کیا ہے؟
صدارتی انتخاب سے متعلق آئین میں واضح کیا گیا ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے تمام اراکین کا ایک ایک ووٹ ہوگا لیکن چاروں صوبائی اسمبلیوں کا ووٹ، ملک میں ارکان کی تعداد کے لحاظ سے سب سے چھوٹی صوبائی اسمبلی یعنی بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد کے برابر تصور کیا جائے گا۔

یعنی بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد 65 ہے تو باقی تینوں صوبائی اسمبلیوں کے کل ووٹ بھی 65 ہی شمار ہوں گے۔

اس کے لیے طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ پنجاب اسمبلی کی کُل نشستوں کی تعداد 371 کو بلوچستان اسمبلی کی کُل نشستوں کی تعداد 65 سے تقسیم کیا جائے گا اور یوں پنجاب اسمبلی میں 5.70 ارکان کا ایک ووٹ شمار کیا جائے گا۔

سندھ اسمبلی کی کُل نشستوں کی تعداد 168 کو بلوچستان اسمبلی کی کُل نشستوں کی تعداد 65 سے تقسیم کیا جائے گا اور یوں سندھ اسمبلی میں 2.58 ارکان کا ایک ووٹ شمار کیا جائے گا۔

خیبرپختنونخوا اسمبلی کی کُل نشستوں کی تعداد 124 کو بلوچستان اسمبلی کی کُل نشستوں کی تعداد 65 سے تقسیم کیا جائے گا اور یوں خیبر پختونخوا اسمبلی میں 1.90 ارکان کا ایک ووٹ شمار کیا جائے گا۔

بلوچستان اسمبلی کے کُل ارکان کی تعداد 65 ہے اس لیے یہاں ہر رکن کا ایک ووٹ تصور ہوگا۔ باقی تینوں صوبائی اسمبلیوں میں مذکورہ فارمولے کے استعمال کرنے کے بعد ان تینوں صوبائی اسمبلیوں کے اپنے اپنے کُل ووٹوں کی تعداد بھی 65 ہی ہوگی۔

یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ صدارتی انتخاب میں کُل ووٹوں کی تعداد، قومی اسمبلی کے 342، سینیٹ کے 104 اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 260 ووٹوں (65 ضرب 4) کو ملا کر ووٹوں کی کُل تعداد 706 بنے گی۔

صدارتی انتخاب میں ون ٹو ون مقابلے کی صورت میں جیتنے والے امیدوار کے لیے 354 ووٹ لینا لازم ہے گویا کہ 354 ایک آئیڈیل وننگ گولڈن نمبر ہوگا۔

صدارتی امیدواروں کی صورتحال
صدارتی انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اس کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے ڈاکٹر عارف علوی کو نامزد کیا گیا ہے۔

اپوزیشن جماعتیں اس معاملے پر تقسیم کا شکار ہیں اور اسی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سینئر رہنما اعتزاز احسن کو امیدوار نامزد کیا ہے۔

دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے امیدوار کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کو منانے کی کوششیں کیں، تاہم دونوں ہی اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ادھر بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل نے صدر کے الیکشن میں تحریک انصاف کو ووٹ دینے کا فیصلہ کرلیا۔

بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل نے پی ٹی آئی کے وفد سے ملاقات میں یقین دہائی کرائی ہے کہ ان کی جماعت صدارتی انتخاب میں ڈاکٹر عارف علوی کی حمایت کرے گی۔

واضح رہے کہ ملک کے 12ویں صدر مملکت ممنون حسین کے عہدے کی میعاد رواں ماہ 9 ستمبر کو ختم ہورہی ہے تاہم نئے صدر کے لیے انتخاب 4 سمتبر کو منعقد کیے جارہے ہیں۔

Facebook Count
0
Twitter Share

Comments are closed.