پاکستان مسئلہ کشمیر کا کوئی فریق نہیں
حریت لیڈران کو بات کرنی ہے تو پاکستان کو الگ رکھیں
دلی سے غلطیاں سرزد ہوئیں، میں صد فیصد سچ بولوں گا تو حریت ہوجائوں گا: گورنر ستیہ پال ملک
سری نگر ، (یو ا ین آئی) جموں وکشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے کہا کہ وادی کشمیر میں حریت قائدین جب تک پاکستان کو الگ نہیں رکھیں گے، تب تک ان سے کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ حریت والے پاکستان کو پوچھے بغیر ٹوائلٹ بھی نہیں جاتے ہیں۔ گورنر موصوف جمعرات کو یہاں شہرہ آفاق ڈل جھیل کے کناروں پر واقع شیر کشمیر انٹرنیشنل کنونشن سنٹر میں محکمہ سیاحت کی ایک تقریب کے حاشئے پر نامہ نگاروں سے بات کررہے تھے۔
جب ایک نامہ نگار نے گورنر ستیہ پال سے مسئلہ کشمیر کے فریقین بشمول حریت کانفرنس سے بات چیت کے بارے میں پوچھا تو ان کا جواب تھا ’میں نے (مسئلہ کشمیر پر) کسی سٹیک ہولڈر سے کوئی بات چیت نہیں کی ہے۔ میں سب سے ملتا ہوں۔ میں نے حال ہی میں عمر صاحب (عمر عبداللہ)، محبوبہ جی (محبوبہ مفتی) اور تاریگامی (محمد یوسف تاریگامی) سے ملاقات کی۔ میں سب سے ملتا ہوں‘۔ ان کا مزید کہنا تھا ’جہاں تک حریت کا تعلق ہے، حریت پاکستان کو پوچھے بغیر ٹوائلٹ بھی نہیں جاتے ہیں۔ جب تک وہ پاکستان کو الگ نہیں رکھیں گے تب تک ان سے کوئی بات نہیں ہوگی‘۔
گورنر موصوف نے ساتھ ہی یہ بھی کہا ’بات کرنا سرکار کا کام ہے۔ میرا کام بات چیت کے لئے سازگار ماحول تیار کرنا ہے۔ میری مسلسل کوشش ہے کہ حالات سازگار بنیں۔ تشدد میں کافی کمی آئی ہے۔ (جنگجووں کی صفوں میں) نئی بھرتیوں میں کافی کمی آئی ہے۔ پتھربازی میں کافی کمی آئی ہے۔ وہ میری وجہ سے نہیں بلکہ لوگوں کے رویوں میں تبدیلی سے ہوئی ہے‘۔
گورنر ملک نے کہا کہ کشمیر دنیا کی سب سے خوبصورت جگہ ہے اور اگر یہاں امن رہا تو سوئٹزر لینڈ سے زیادہ لوگ کشمیر آسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’کشمیر دنیا کی سب سے شاندار جگہ ہے۔ کشمیر کے لوگوں کو یہ مسیج لینا چاہیے کہ اگر آپ یہاں امن قائم کردیں گے تو آپ کے یہاں سوئٹزرلینڈ سے بھی زیادہ لوگ آئیں گے‘۔ اس سے قبل گورنر ستیہ پال ملک نے گذشتہ شام اسی جگہ پر ایک نجی ٹی وی نیوز چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ حکومت ہند کو ریاست میں اسمبلی انتخابات سے قبل اپنے رویے میں نرمی لاتے ہوئے بات چیت کے دروازے کھولنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ اسے کشمیر میں علاقائی جماعتوں اور دیگر کشمیریوں سے بات کرنی چاہیے۔ گورنر موصوف نے کہا کہ میں یہ ایمانداری سے کہتا ہوں کہ گذشتہ چالیس برسوں کے دوران دہلی سے کچھ غلطیاں سرزد ہوئیں جن کی وجہ سے کشمیر میں اجنبیت کا احساس پیدا ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں اس حوالے سے صد فیصد سچ بولوں گا تو حریت ہوجاو¿ں گا۔ گورنر ملک نے کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا کوئی فریق نہیں ہے اور حریت کانفرنس کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ وہ ’پاکستان‘ کے بغیر باتھ روم بھی نہیں جاتے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی، اٹانومی اور پاکستان سے الحاق ایسے جھوٹے خواب ہیں ، جو کبھی پورے نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا کہ دلی کا میڈیا کشمیر اور کشمیریوں کو منفی انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرکے بہت زیادتی کرتا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ وادی کشمیر میں جمعیت اہلحدیث جیسی تنظیمیں جن کی بقول ان کے سعودی عرب سے فنڈنگ ہوتی ہے، لوگوں کو جنت میں داخلے کا خواب دکھاتی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وادی میں اکتوبر کے مہینے میں جنگجووں کی صفوں میں شمولیت کی شرح زیرو فیصد رہی۔ بڑے پیمانے کی پتھربازی بند ہوگئی اور پولیس و نہتے لوگوں پر حملوں میں بہت کمی آئی۔
گورنر نے کہا کہ کشمیری نوجوانوں کو بندوقوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا اور اگر انہیں کچھ حاصل ہوگا تو وہ صرف بات چیت سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ منان وانی جیسے نوجوان کشمیر اور ملک کے کام آسکتے تھے۔ تاہم انہوں نے انکشاف کیا کہ جب ایک جنگجو کا جنازہ اٹھتا ہے تو چھ نئے نوجوان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ستیہ پال ملک نے ریاست میں اسمبلی انتخابات سے قبل مذاکرات کی وکالت کرتے ہوئے کہا ’اسمبلی انتخابات سے پہلے میں یہ چاہوں گا کہ مرکزی حکومت بات چیت کے کوئی دروازے کھولیں۔ رویے میں نرمی لائی جائے۔ دونوں جماعتوں سے بات چیت کی جائے۔ حریت کی یہ دقعت ہے کہ وہ بنا پاکستان کے باتھ روم بھی نہیں جاتے ۔ انہیں ہر چیز میں پاکستان چاہیے۔ یہاں ہمارے لوگ ہیں، ہم ان سے بات چیت کریں گے‘۔
انہوں نے نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کا نام لئے بغیر کہا ’یہ لوگ صحیح بات نہیں بولتے ہیں۔ دلی میں کچھ بولتے ہیں اور یہاں کچھ اور بولتے ہیں۔ یہاں اگر یہ ہمت کے ساتھ جنگجویت کے خلاف بولیں گے اور انہیں سمجھائیں گے کہ اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ تو بہت کچھ سدھر سکتا ہے‘۔ گورنر موصوف نے کہا کہ میں یہ ایمانداری سے کہتا ہوں کہ گذشتہ چالیس برسوں کے دوران دہلی سے کچھ غلطیاں سرزد ہوئیں جن کی وجہ سے کشمیر میں اجنبیت کا احساس پیدا ہوگیا۔ انہوں نے کہا ’میں نے بالکل ایمانداری سے بولنے کی کوشش کی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کیوں پیدا ہوا۔ گذشتہ چالیس برسوں کے دوران دہلی سے کچھ غلطیاں سرزد ہوئیں۔ جن کی وجہ سے یہاں اجنبیت کا احساس پیدا ہوگیا۔ جب میں نے یہ بات کہی تو آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ حریت کانفرنس نے بھی کہا کہ گورنر صاحب نے پچاس فیصد سچ بولا ہے۔ میں صد فیصد سچ بولوں گا تو حریت ہوجاو¿ں گا۔ میں پچاس فیصد ہی سچ بول سکتا تھا، اور وہی سچ تھا‘۔ ستیہ پال ملک نے کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا کوئی فریق نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا ’پاکستان مسئلہ کشمیر کا اسٹیک ہولڈر نہیں ہے بلکہ ایک ٹربل میکر بن گیا ہے۔ وہ سوشل میڈیا کا استعمال کرکے یہاں کے نوجوانوں کو بھڑکاتا ہے۔ یہ ہمارے بیچ کی بات ہے، ہم طے کریں گے۔ پاکستان کون ہوتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کوئی بات ہوگی تو وہ دو ملکوں کی بات ہوگی۔ لیکن پاکستان کو ہم کبھی بھی کشمیر کا سٹیک ہولڈر نہیں مانیں گے‘۔ گورنر موصوف نے کہا کہ آزادی، اٹانومی اور پاکستان سے الحاق ایسے جھوٹے خواب ہیں ، جو کبھی پورے نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا ’ کشمیر کی صورتحال میں گذشتہ چار مہینوں کے دوران کافی تبدیلی آئی ہے۔ میں نے یہاں آکر سمجھا کہ لوگوں کو جھوٹے خواب بیچے گئے ہیں۔ آزادی، اٹانومی اور پاکستان کے ساتھ ملنے کے خواب بیچے گئے ہیں۔ لیکن لوگ آہستے آہستے سمجھنے لگے ہیں یہ سب جھوٹ ہے اور ایسے خواب کبھی پورے ہونے والے نہیں ہیں‘۔
انہوں نے کہا ’تیرہ سے بیس سال کی عمر کے نوجوان کافی مایوس تھے۔ وہ کشمیر کی آبادی کا 46 فیصد ہیں۔ وہ ہم سے ، پاکستان سے اور حریت سے ناراض ہیں۔ اور یہاں کی مین اسٹریم پارٹیوں سے بھی بہت خوش نہیں ہیں۔ ان کو جنت کا خواب دکھایا جارہا تھا۔ انہیں بتایا جارہا تھا کہ مرنے میں مزہ ہے، جینے میں کوئی مزہ نہیں ہے۔ میں نے ان کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ ملک کی سب سے اچھی جگہ آپ کی ہے۔ آپ کے پاس الگ جھنڈا ہے۔ اپنا آئین ہے۔ اور آپ کو ایک ایسا وزیر اعظم ملا ہے جو بہت ہی دوستانہ ہیں۔ آپ محبت سے ان سے کچھ بھی پاسکتے ہو۔ لہٰذا یہ بندوق چھوڑ دو‘۔ گورنر نے کہا کہ کشمیری نوجوانوں کو بندوقوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا’ یہ تین سو لڑکے (جنگجو) ہیں۔ انہیں کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔
ایک طرف انڈین مائٹ ہے اور دوسری طرف وہ تین سو لڑکے ہیں۔ جو ملنا ہے، بات چیت سے ملنا ہے۔ بات چیت کے لئے ہمارے وزیر اعظم ہمیشہ تیار ہیں۔ ہم یہاں پر بہتر کام کرکے بتائیں گے کہ دہلی آپ کی دوست ہے، دشمن نہیں۔ دہلی آپ پر راج نہیں کررہی ہے، بلکہ چاہتی ہے کہ آپ یہاں بھی اور ملک میں بھی راج کریں‘۔ انہوں نے کہا ’ہم ان بچوں کو نہیں مارنا چاہتے۔ میں ایک کو بھی مارنے کے خلاف ہوں۔ ہم دہشت گردی کو مارنا چاہتے ہیں۔ ہم اس کو اس طرح مار سکتے ہیں کہ لوگ میں اعتبار پیدا ہو کہ یہ راستہ غلط ہے‘۔ مسٹر ملک نے کہا کہ ریسرچ سکالر منان وانی جیسے نوجوان کشمیر اور ملک کے کام آسکتے تھے۔ ان کا کہنا تھا ’منان وانی پڑھا لکھا نوجوان تھا۔ وہ ملک اور کشمیر کے کام آسکتا تھا۔ فضول کے کام میں اس نے اپنی جان گھنوا دی۔ میں تو چاہتا ہوں کہ یہاں کے نوجوان کی سوچ بدلی جائے۔ جب ایک مرتا ہے تو جنازے میں چھ نئے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ صورتحال ہمیں نہیں پیدا کرنی ہے۔ ہمیں انہیں غیرمتعلق بنانا ہے‘۔ گورنر نے کہا کہ مقامی لوگوں کا مسلح تصادم کے مقامات کا رخ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا ’ہم اخباروں میں اشتہار دیں گے کہ اگر کہیں مسلح تصادم چل رہا ہے تو لوگ وہاں نہ جائیں۔ جب مسلح تصادم ختم ہو، اس کے بعد بھی دو تین دن تک انتظار کریں‘۔
گورنر نے کہا کہ دلی کا میڈیا کشمیر اور کشمیریوں کو منفی انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرکے بہت زیادتی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا ’سانحہ یہ ہے کہ دہلی کا پریس یہاں زیادتی کرتا ہے۔ پورے کشمیر کو ایک ہی عینک سے دیکھتا ہے۔ ایسی منظرکشی کرتا ہے جیسے پورا کشمیر جل رہا ہے، پورا کشمیر دیش کے خلاف ہے۔ پورا کشمیر تشدد پسند ہے۔ ایک بچا آئی پی ایل کے لئے منتخب ہوا، بیس ہزار لوگوں اس کے گھر مبارکبادی کے لئے پہنچے‘۔ ستیہ پال ملک نے دعویٰ کیا کہ وادی میں اکتوبر کے مہینے میں جنگجوو¿ں کی صفوں میں شمولیت کی شرح زیرو فیصد رہی۔ انہوں نے کہا ’اس مہینے کی نئی بھرتی زیرو ہے۔ بڑے پیمانے کی پتھربازی بالکل بند ہوگئی ہے۔ پولیس اور نہتے لوگوں پر حملوں میں بہت کمی آئی ہے۔ اس کا سہرا میں لوگوں کو ہی دوں گا۔ ہم نے گذشتہ تین چار مہینوں کے دوران نوجوانوں کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ بیکار کے کام ہیں۔ یہ کام مت کرو‘۔ گورنر نے الزام لگایا کہ وادی میں جمعیت اہلحدیث جیسی تنظیمیں جن کی بقول ان کے سعودی عرب سے فنڈنگ ہوتی ہے، لوگوں کو جنت میں جانے کا خواب دکھاتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’کوئی بھی جنگجو اپنی بندوق چھوڑ کر میرے پاس آئے اور مجھے یہ سمجھا دے کہ اس کی بندوق اور جان دینے سے کیا حاصل ہوگا۔ ایک خطرناگ کام ہورہا تھا پاکستان کی طرف سے۔ یہاں دو تین تنظیمیں ہیں، ایک تنظیم اہلحدیث ہے۔ ان کے پاس سعودی عرب سے روپیہ آتا ہے۔ بڑھیا مسجدیں بنائی ہیں۔ ان میں اے سی اور حمام لگے ہوئے ہیں۔ ان کی یہ تعلیم تھی کہ آزادی دلوا نہیں سکتے ۔ پاکستان کے ساتھ جانا آسان نہیں ۔ تو چلو، جنت ہی دلواتے ہیں۔ اب بچوں کی سمجھ میں بھی آرہا ہے کہ جنت کا خواب فضول کی بات ہے۔ اور اس میں زندگی برباد کرنے سے کوئی فائدہ نہیں‘۔ یو اےن آئی
Comments are closed.