ویڈیو: تمام متعلقین کیساتھ مذاکرات کیلئے سازگار ماحول بنایا جائے: علی محمد ساگر

نیشنل کانفرنس کا اعلیٰ سطحی وفد گورنر سے ملاقی
اعتماد سازی کے اقدامات اُٹھانا وقت کی اہم ضرورت

سرینگر//گرفتاریوں، ہلاکتوں ، مظالم اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے بیچ حالات کی بہتری کی کوئی اُمید نہیں کی جاسکتی۔ افہام و تفہیم، مفاہمت، مصلحت اور مذاکرات سے ہی ریاست میں امن لوٹایا جاسکتا ہے، اس وقت ایک ایسا ماحول قائم کرنے ضرورت ہے جس میں تمام متعلقین بشمول حریت کیساتھ بات چیت کا راستہ ہموار ہو اور گذشتہ4سال سے جاری غیر یقینیت، بے چینی اور افراتفری کا خاتمہ کیا جاسکے۔

ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس کے وفد نے ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک کیساتھ گورنر ہاﺅس میں ایک ملاقات کے دوران کیا۔ وفد کی قیادت جنرل سکریٹری علی محمد ساگر کررہے تھے جبکہ وفد سینئر لیڈران عبدالرحیم راتھر، چودھری محمد رمضان، میر سیف اللہ اور سکینہ ایتو بھی شامل تھیں۔ وفد نے گورنر ستیہ پال ملک کو ریاست خصوصاً وادی کی زمینی صورتحال سے آگہی دلائی اور کہا کہ اس وقت انسانی حقوق کی پامالیاں عروج پر ہیں، نوجوان عدم تحفظ کے شکار ہیں، بے گناہوں کو پکڑا جارہا ہے، بے گناہ مارے جارہے ہیں اور سیاسی ورکر قتل ہورہے ہیں۔

ایسے حالات میں نوجوانوں کا غصہ کیسے کم ہوسکتا ہے؟ انہوں نے گورنر صاحب کو وہ بیان یاد دلایا جس میں موصوف نے کہا تھا کہ دلی سے غلطیاں ہوئی ہم وہ غلطیاں نہیں دہرائیں گے اور ہمیں جنگجوﺅں کو نہیں بلکہ جنگجوئیت کو مارانا ہوگا۔

وفد نے گورنر سے کہا کہ گذشتہ روز تصادم آرائی میں مارے گئے جنگجو پی ایچ ڈی سکالر ڈاکٹر منان وانی جیسے پڑھے لکھے نوجوانوں کو انکاﺅنٹروں میں ابدی نیند سلا دینے کے بجائے انہیں مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش ہونی چاہئے اور اس کیلئے پہلے ایک ساز گار ماحول بنایا جائے۔ ہلاکتوں، انسانی حقوق کی پامالیوں اور گرفتاریوں کو روکنا ہوگا تاکہ نوجوانوں میں جنگجوئیت کا بڑھتا ہوا رجحان کم ہوجائے۔ نئی دلی کو لوگوں کے دل جیتنے کیلئے اعتماد سازی کے اقدامات اُٹھانے چاہئیں۔ ایسے قیدی، جن کیخلاف سنگین نوعیت کے کیس نہیں، کو رہا کیا جانا چاہئے۔

آبادی والے علاقوں میں فورسز کی موجودگی کم کی جانی چاہئے، نئے کیمپ اور بنکر بنانے کا سلسلہ فوری طور پر روکا جانا چاہئے اور لوگوں کا اعتماد و بھروسہ جیتنے کیلئے جتنے بھی اقدامات ممکن ہوں کئے جانے چاہئیں۔

الیکشن سے دوری بنائے رکھنے کے پارٹی کے فیصلہ کو صحیح قرار دیتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے وفد نے گورنر صاحب کو بتایا کہ ہماری جماعت نے 35اے کیلئے یہ فیصلہ کیا تھا اور پارٹی اپنے موقف پر قائم ہے۔

اس کے علاوہ موجودہ حالات بھی الیکشن کیلئے ساز گار نہیں ۔ آپریشن کاسو اور آپریشن آل آﺅٹ کے بیچ کامیاب الیکشن کیسے ہوسکتے ہیں؟ موجودہ الیکشن جمہوریت کے نام پر ایک مذاق ثابت ہورہے ہیں، عوام کو اُمیدوار کے بارے میں کوئی خبر نہیں اور اُمیدوار زمینی صورتحال سے بے خبر ہے۔

جموں میں مقیم لوگوں کو الیکشنوں میں اُتارا گیا۔ ووٹنگ شرح سے لوگوں کے عدم دلچسپی صاف عیاں ہے، ووٹر تو دور کی بات الیکشن کے دو مراحل میں کچھ ایسے وارڈ بھی تھے جہاں اُمیدوار بھی اپنا ووٹ ڈالنے نہیں آئے۔ 70فیصدی وارڈوں میں یا تو اُمیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہوئے ہیں یا پھر کوئی اُمیدوار ہے ہی نہیں۔

وفد نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے ہمیشہ ریاستی گورنر کے عہدے کا احترام کیا ہے اور اس منصب کے اقدار کو بنائے رکھنے کیلئے اہم رول نبھایا ہے تاہم گذشتہ ایام کے دوران جس طرح سے اس آفس نے مخصوص پارٹیوں کی طرفداری کی ہے اور بلا وجہ ہماری جماعت کیخلاف ریمارکس ظاہر کئے ہیں اُس سے اس غیر سیاسی منصب کے تقدس کو ٹھیس پہنچی ہے۔

Comments are closed.