وادی میں آوارہ کتوں کی تعداد انسانوں کا اپنے گھروں سے باہر نکلنا دشوار

شہر سرینگر میںآوارہ کتوں کی تعدادتشویشناک حد تک پہنچ گئی ، متعلقین کیلئے لمحہ فکریہ !

سرینگر/یکم مارچ: وادی کشمیر میں آوارہ کتوں کی تعداد انسانی آبادی کے یکساں ہونے کو ہے اور ہر نکڑ ، ہر گلی ، ہر کوچے میں درجنوں درجنوں آوارہ کتوں کے جھڑوں کی وجہ سے لوگوں کو اپنے گھروں سے باہر آنے میں ڈر و خوف محسوس ہورہا ہے جبکہ آج تک درجنوں افراد کتوں کے حملوں میں ازجان ہوچکے ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوچکے ہیں ۔ اس حوالے سے عوامی حلقوں نے کہا کہ یہاں اب انسانی کی جانوں سے زیادہ آوارہ جانوروں کی جانوں کی قیمت سمجھی جاتی ہے ۔ کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق وادی کشمیر میں آوارہ کتوں کی تعداد آئے روز بڑھ جانے کے نتیجے میں وادی کے ہر گلی اور ہر نکڑ پر آوارہ کتوں کے جھنڈ کے جھنڈ دکھائی دے رہے ہیں ۔ جبکہ ہر علاقے میں رہائشی مکانوں کے کھڑکیوں اور دروازوں کے باہر دو دو تین تین آوارہ کتے پہرے پر بیٹھے دکھائی دے رہے ہیں ۔ آوارہ کتوں کی بڑھتی تعداد اب اس قدر زیادہ ہوگئی ہے کہ آوارہ کتوں کی تعداد انسانی آبادی کے یکساں جلد ہی ہوگی کیوں کہ صرف شہر سرینگر میں ہی ایک ملین یعنی 10لاکھ سے زیادہ آوارہ کتے آباد ہیں ۔ اس صورتحال پر تشویشناک اور انسانیت کیلئے خطرناک قراردیتے ہوئے عوامی حلقوں نے کہا ہے کہ آوارہ کتوں اور دیگر جانوروں اب یہاں انسانوں سے زیادہ قدرومنزلت کی نظروں سے دکھائی دے رہے ہیں کیوں کہ اگر کوئی شخص آوارہ کتے کو مارے گا تو اس کو جھیل بھہج دیا جائے گا جبکہ اس کے خلاف جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا تاہم جب آوارہ کتوں کے حملوں میں جب کوئی انسان اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتا ہے تو اس پر انتظامیہ خاموشی اختیار کررہی ہے ۔ آوارہ کتوں کو اگرچہ قانونی تحفظ فراہم ہے لیکن انسانوں کیلئے کوئی تحفظ نہیں ہے ۔ عوامی حلقوں نے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے آوارہ کتوں کو مارنے پر پابند عائد کی گئی ہے لیکن آوارہ کتوں کے حملوں سے لوگوں کو بچانے کیلئے کوئی قانون نہیں بنایا گیا ہے ۔ آوارہ کتوں کے حملوں میں مارے گئے افراد کی موت کے ذمہ دار کون ہیں کیا مینکا گاندھی جنہوںنے جانوروں کو تحفظ فراہم کرنے کا بیڑا اُٹھارکھا ہے ایسے کنبوں کی روزی روٹی کا بندوبست کرسکتی ہے جن کے واحد کمانے والے آوارہ کتوں کے حملوں میں اپنی جان گنواء بیٹھے ہیں۔ کیا مینکا جی ان لوگوں کو زندہ کرسکتی ہے جو آوارہ کتوں کے شکار ہوچکے ہیں ۔ عوامی حلقوں نے کہا کہ آوارہ کتوں کو تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کو چاہئے کہ وہ ایسے کنبوں اور ایسے افراد کی بازآباد کاری کیلئے بھی اقدامات اُٹھائیں جو آوارہ کتوں کی درندگی کے شکار ہورہے ہیں ۔ ادھر وادی میں میونسپلٹی آوارہ کتوں کو ایک جگہ رکھنے میں ناکام ہوچکی ہے ۔ اس سلسلے میں ہارون میں بنائے گئے آوارہ کتوں کیلئے بازآباد کاری سنٹر میں آج کل کوئی آوارہ کتا نہیں ہے اور نا ہی شہر اور دیہات سے کسی کتے کو لاکر اس سنٹر میں رکھا جاتا ہے تاہم سرکاری خزانے سے ہر ماہ لاکھوں روپے اس کام کیلئے نکالے جاتے ہیں ۔ لیکن زمینی سطح پر اس طرح کا کوئی کام عمل میں نہیں لایا جاتا۔ ادھر میونسپلٹی میں کام کررہے ایک ملازم نے سی این آئی کو نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ صرف شہر سرینگر میں آوارہ کتوں کی تعداد 10سے زیادہ پہنچ گئی ہے جبکہ اس کے مثاوی بڈگام اور گاندربل میں پائی جارہی ہے ۔ جبکہ دور دراز پہاڑی علاقوں میں آوارہ کتوں کی تعداد کافی کم ہے کیوں کہ ان علاقوں میں سردی جلدی پڑتی ہے اور ایسے علاقوں میں آورہ کتوں کو غذائیت کا بھی مسئلہ وہاں رہنے سے دور رکھتا ہے۔

Comments are closed.