اسلام آباد :کستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ریٹائرڈ) محمد صفدر کی عید الاضحی اس بار اڈيالہ جیل میں گزرے گی۔
نواز شریف کا جیل میں عیدمنانے کا یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ اس سے پہلے 1999 میں ہوئے تختہ پلٹ کی مخالفت کے بعد نواز شریف کو جیل میں رکھا گیا تھا، تب بھی انہیں دو بار عید جیل میں رہ کر ہی منانا پڑا تھا۔
روزنامہ ‘ڈان’ کے مطابق نواز شریف، مریم اور کیپٹن صفدر کی رہائی کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے۔ اس کی وجہ سے میاں نواز اور دیگر کو اس بار عید ا لاضحی جیل میں منانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو (نیب) کے وکیل سردار مظفر عباسی نے دلیل دی کہ سزا کے خلاف احتساب بیورو میں اپیل دائر کرنے کے بعد ملزم کسی دوسری عدالت میں عرضی دائر نہیں کر سکتے۔ جسٹس اطہر اور جسٹس ایم حسن اورنگ زیب کی بنچ نے اس اعتراض کو نظر انداز کرتے ہوئے فریق دفاع کے وکیل خواجہ حارث اور امجد پرویز سے اپنا موقف رکھنے کے لئے کہا تھا۔
جب عدالت نے استغاثہ کے وکیل عباسی سے جمعرات کو معاملے پر بحث کرنے کے لئے کہا تو ا انہوں نے جواب دینے کے لئے وقت مانگا تھا۔بیچ نے تاخیر کرنے پر ناراضگی ظاہر کی اور بعد میں نیب پر 10،000 روپے کا جرمانہ لگایا اور سماعت ملتوی کر دی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ چھ جولائی کو احتساب عدالت نے اے ون فیلڈ پراپرٹی کے معاملے میں نواز شریف کو 10 سال، مریم نواز کو سات سال اور کیپٹن صفدر کو ایک سال کی سزا سنائی تھی۔
نوازشریف اور مریم نواز کا نام ای سی ایل میں شامل
پاکستانی وفاقی کابینہ کے فیصلے کی روشنی میں وزارت داخلہ نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحب زادی مریم نواز کا نام ای سی ایل میں شامل کرلیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وزارت داخلہ نے کابینہ کے فیصلے کی رو سے نواز شریف اور مریم نواز کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرلیا ہے۔ دونوں کا نام تاحکم ثانی ای سی ایل پر ڈالا گیا ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : نواز و مریم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا فیصلہ
واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں وفاقی کابینہ کا پہلا اجلاس ہوا۔ کابینہ نے نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کا نام ای سی ایل میں ڈالنے جب کہ حسن نواز، حسین نواز اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو گرفتار کرکے واپس پاکستان لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
Comments are closed.