نئے سال کا آغاز اور ہماری غفلت شعاری

حسب روایت سنہ عیسوی یا ہجری کے نئے سال کے آغاز پرلوگ ایک دوسرے کومبارکباد دیتے ہیں آپس میں مٹھائیاں اورگفٹ تقسیم کرتے ہیں ایک دوسرے کو دعوت پر بلاکر طعام وقیام کا اہتمام کرتے ہیں اگرچہ یہ ایک رواج بن گیا ہے لیکن حقیقت میں نئے سال کی آمد ہر ایک انسان کےلئے ایک نیا پیغام لیکر آتاہے کہ آپ کی زندگی کاایک اور سال گذر گیا اب تک جو آپ نے کیا اس کا احتساب کرکے اس نئے سال کےلئے ایسی تیاری کرو جو آپ کےدنیا و آخرت کےلئے فائدہ مند ثابت ہو ۔اس سال کے بعد اور ایک سال کی آمد بھی ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ نئے سال کی آمد پر خوشیاں منانے والے کےلئے یہ آخری سال بھی ثابت ہوسکتا ہے ۔کیونکہ موت ہر وقت انسان کا احاطہ کیا ہوتا ہے اور یہ صرف اللہ کے حکم کے انتظار میں رہتا ہے وقت معین پر ہر متنفس کا روح قبض کرتا ہے ۔یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ دنوں،مہینوں اور سالوں کی یہ گردش دراصل وقت کا تعین ہے اور یہ دنیا چلنے اور چلانے کےلئے ایک راستہ ہے اور ہر سال کے گذر جانے کے بعد نئے سال کےلئے حکومتی سطح پر یا گھرکوچلانے کے لئے گھریلو سطح پر منصوبے ترتیب دئے جارہے ہیں اور ان منصوبوںکو عملی جامہ پہناتے ہوئے نظامِ دنیا چلتا ہے ۔عصر حاضر میں منصوبے ترتیب تو دئے جاتے ہیںلیکن ان کو عملانے کاہر سطح پر فقدان پایا جاتا ہے اس کے بنیادی محرکات یہ ہیں کہ انسان خود غرض ,مفاد پرست اورلالچی بن گیا ہے وہ دوسرے کو فائدہ پہنچانے کے بجائے اپنے مفاد کو ہی ملحوظ نظررکھتا ہے حالانکہ انسان کو درددل کے واسطے پیدا کیا تھا لیکن انسان ان آفاقی اصولوں کو بھول بیٹھا ہے۔انسان کا یہ گمان ہے کہ اس کی چالاکیوں اور جعلسازی سے دنیا کا دم خم ہے لیکن یہ گمان اس کو نظروں کا دھوکہ ہے کیونکہ اس دنیا کا چلانے والا کارساز جب بھی انسان کےبنائے ہوئے منصوبوں کو بگاڑنا چاہتا ہے تو انسان دھنگ رہ جاتاہے کیونکہ وہ کائنات کا خالق ومالک ہے اسی کے اختیار میں سب کچھ ہے تاہم اس نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیکر اس کو دنیا چلانے میں خود مختاری عطاکی اور جب تک انسان اللہ کے اصولوں کے مطابق دنیا کانظام چلاتا ہے تو وہ کامیاب ہے اور ہر سال اس کےلئے کامیابی اور اللہ کی رضامندی کا پیغام لیکر آتا ہے لیکن جب انسان اس خودمختاری کا ناجائز فائدہ اٹھا کر بےلگام ہوکر من پسند اصول اپناکر لوگوں کا استحصال کرتا ہے تو اس کا ہر سال خسارے کا سودا ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس کی نگرانی میں رہنے والے لوگ اس سے بددل ہوئے ہوتے ہیں اور مولائے کل کائنات بھی اس سے بےزار رہتا ہے ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب انسان حد سے نکل جاتا ہے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے بجائے اپنی مرضی چلاتا ہے توظلم اور ناانصافی زور پکڑتی ہیں لیکن ظلم ظلم ہے بڑھ جاتا ہے تو مٹ جاتا ہے جب اللہ خودساختہ اصول اپنانے والے کو پکڑتا تو کوئی دنیا کی طاقت اس کو بچا نہیں سکتی ہے ۔زمانے کی قدرومنزلت جانے والے انسانوں کو زمانہ یاد کرتا ہے ۔اللہ رب العزت نے زمانے کی قسم کھا کر کہا ہے کہ انسان خسارے میں ہیں سوا وہ جو ایمان لائے اور اعمال صالح کرتے ہیں اور سچائی کی طرف بلاتے ہیں اور صبر پر قائم رہتے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان ہر سال کی آمد پر سال رفتہ میں انجام دئے ہوئے کاموں کی طرف توجہ مرکوزکرکے اپنا احتساب کریں اور نئے سال میں آفاقی اصولوں کے تحت زندگی گذارنے کا تہہ کریں تاکہ انسان خاتمہ حق پر ہی ہوجائے

Comments are closed.