موجودہ صورتحال اٹانومی کی مکمل بحالی کی متقاضی

حالات سدھارنے کیلئے مرکز اور ریاستی حکومتوں کے پاس کوئی منصوبہ نہیں: عمر عبداللہ

سرینگر(پی آر ) : جموں وکشمیر کے سب سے بڑے جمہوری ایوان میں عوامی نمائندوں کی طرف سے دو تہائی اکثریت سے منظور کردہ اٹانومی مسودہ مسئلہ کشمیر کا بہترین حل ہے اور حکومت ہند کو چاہئے کہ وہ وقت ضائع کئے بغیر ریاست کی اندرونی خودمختاری کی بحالی کا عمل شروع کرے۔

ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے آج پارٹی کے صوبائی سطح کے ایک غیر معمولی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں پارٹی جنرل سکریٹری علی محمد ساگر، معاون جنرل سکریٹری ڈاکٹر شیخ مصطفےٰ کمال اور صوبائی صدر ناصر اسلم وانی کے علاوہ صوبہ کشمیر کے لیڈران، ضلع صدور اور انچارج کانسچونسیز بھی موجود تھے۔

اجلاس کے شرکاءنے اپنے اپنے علاقوں کے لوگوں کے مسائل ومشکلات اُبھارے اور ساتھ ہی تنظیمی امورات اور سرگرمیوں کے بارے میں بھی اجلاس کو آگہی دلائی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے این سی نائب صدر نے کہا کہ ریاست خصوصاً وادی کے حالات انتہائی مخدوش ہیں، ملی ٹنسی کا گراف اپنے عروج پر ہے۔ جنگجویانہ کارورائیوں، جو صرف جنوبی کشمیر تک محدود تھیں، اب شمالی کشمیر اور وسطی کشمیر سمیت سرینگر تک وسعت پا گئی ہیں۔

حالات صاف طور پر ریاست اور مرکزی حکومت کے کنٹرول سے باہر دکھائی دے رہے ہیں، ایسا محسوس ہورہاہے کہ جنوبی کشمیر میں حکومت کی کوئی گرفت نہیں۔ انکاﺅنٹر، کریک ڈاﺅن، ہلاکتیں، چھاپہ مار کارروائیاں، توڑ پھوڑ، گرفتاریاں، پی ایس اے کا اطلاق اور انسانی حقوق کی پامالیاں اب روز کا معمول بن کر رہ گیا ہے۔

عمر عبداللہ نے کہا کہ موجودہ مخدوش حالات نئی دلی کی طرف سے کشمیر کی زمینی صورتحال کو تسلیم نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ اگر مرکز نے وقت رہتے کشمیریوں کے احساسات اور جذبات کے خلاف فیصلے نہ لئے ہوتے تو آج ہمیں ایسے حالات کا سامنا نہ ہوتا۔ جہاں جموں وکشمیر کے عوام خصوصی پوزیشن کی بحالی کی مانگ کرتی رہی وہیں مرکز ریاست کو حاصل خصوصی مراعات سلب کرتا گیا۔ مرکز کی لیت و لعل اور وقت گزاری کی پالیسی کی وجہ سے آج حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ نہ تو ریاستی حکومت اور نہ ہی مرکزی سرکار کے پاس حالات سدھارنے کا کوئی منصوبہ ہے۔

نائب صدر نے کہاکہ پی ڈی پی کی وعدہ خلافی بھی حالات کی خرابی کی بنیادی وجہ ہے، قلم دوات جماعت والوں نے پہلے بھاجپا کو اقتدار سے دور رکھنے کیلئے ووٹ مانگے اور پھر انہی کے ساتھ بغلگیر ہوگئے ، جس کیلئے عوام نے انہیں مندیٹ نہیں دیا تھا۔ حکومت ملنے کے بعد پی ڈی پی والوں کو صرف اقتدار کے مزے لوٹنے اور کرسی بچانے کی فکر لاحق تھی جبکہ دوسری جانب بھاجپا والے کشمیر مخالف اقدامات کرتے گئے۔

انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی نے حکومت میں رہ کر ایک بار بھی بھاجپا کی کشمیر دشمن پالیسیوں کی مخالفت نہیں کی کیونکہ محبوبہ جی کو اپنی کرسی زیادہ پیاری تھی۔ پی ڈی پی کی بدحکمرانی اور بدنظمی نے وادی کو 90ءکی طرف دھکیل دیا۔ عمر عبداللہ نے اجلاس کے شرکا پر زور دیا کہ وہ لوگوں کے ساتھ قریبی رابطہ رکھیں ۔ انہوں نے پارٹی سے وابستہ ضلع صدور، بلاک صدور اور انچارج کانسچونیز کو ہدایت کی کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں رہیں اور لوگوں کے مسائل و مشکلات اُجاگر کرنے میں اپنا رول نبھائیں۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کا اعتماد اور تعاون ہی سب سے بڑا سرمایہ ہے ، نیشنل کانفرنس کا یہ اصول رہا ہے کہ عوام طاقت کا سرچشمہ ہے اور سرداری عوام کا حق ہے۔

اجلاس میں سینئر لیڈران عبدالرحیم راتھر، چودھری محمد رمضان، سکینہ ایتو، پیرزادہ احمد شاہ، میر سیف اللہ، ممبرانِ قانون سازیہ مبارک گل، محمد اکبر لون، علی محمد ڈار، آغا سید روح اللہ مہدی، الطاف احمد کلو، ایڈوکیٹ عبدالمجید لارمی، آغا محمود، شیخ اشفاق جبار، شوکت حسین گنائی، جنوبی زون صدر ڈاکٹر بشیر احمد ویری، پارٹی لیڈران عرفان احمد شاہ، محمد سعید آخون، غلام قادر پردیسی، پیر آفاق احمد، تنویر صادق، سلمان علی ساگر، ایڈوکیٹ شوکت احمدمیر، غلام نبی رتن پوری، جاوید احمد ڈار، عمران نبی ڈار، غلام محی الدین میر، ڈاکتر محمد شفیع، شیخ محمد رفیع، شبیر احمد کلے، ایڈوکیٹ نذیر احمد ملک، صوبہ صوبہ خواتین ونگ صبیہ قادری، غلام نبی بٹ ، جگدیش سنگھ آزاد، حاجی عبدالاحد ڈار، میر غلام رسول ناز، غلام نبی وانی تیل بلی، غلام حسن راہی، غلام نبی اڑگامی، نثار احمد نثار، کے علاوہ کئی عہدیداران موجود تھے۔

اس سے قبل اجلاس کے افتتاح میں کولگام میں گذشتہ دنوں مارے گئے 7معصوم نوجوانوں پر ایک ماتمی قرارداد کے ذریعے اُن کے لواحقین، خصوصاً والدین اور اہل خانہ کیساتھ تعزیت اور اظہارِ یکجہتی کیا گیا۔ اس موقعے پر مرحومین کے حق میں دعائے مغفرت اور کلمات ادا کئے گئے اور جنت نشینی و بلند درجات کیلئے بھی دعا کی گئی۔ قرارداد میں ان ہلاکتوں کے خاطیوں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

Comments are closed.