معمار ِقوم پر یہ ستم کیوں ؟

ہرسماج میں استاد کا مقام عظیم ہے کیونکہ اسی کے دم سے بہتر سماج تعمیر ہوتے ہیں اور ہرمذہب بالخصوص مذہب اسلام میں تعلیم اور تعلم کو اعلیٰ مقام حاصل ہے اور تعلیم دینے والا معلم عظیم المرتب تصور کیا جاتا ہے۔لیکن یہاں حالات اس کے برعکس سامنے آتے ہیں۔ہمارے سماج میں بیوکریٹ اور شاہی مزاج رکھنے والے افسران کو عزت وکرام سے نوازا جاتا ہے جبکہ استاد کو ہر اعتبار سے نظر انداز کیا جارہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عصر حاضر کا استاد اپنی ذمہ داریاں خوش اصلوبی سے نبھانے سے قاصر ہے فرض شناسی کا احساس نہیں رکھتا ہے اس لحاظ سے موجودہ زمانے کے استاد کو جوابدہ بنانا لازمی ہے کیونکہ اس کے ساتھ نئی پود کا مستقبل جڑا ہوا ہے اس حوالے سے کسی سمجھوتہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے تاہم جس طرح سے دوسرے محکمہ جات کے ملازمین و افسران کو معقول و مناسب مراعات سے نوازا جاتا ہے تو استاد کو نظر انداز کرنا سراسر ناانصافی ہے جبکہ استاد زیادہ سے زیادہ مراعات کا مستحق ہے کیونکہ اس کا دل ودماغ نئی نسل کی بہتر تعمیر کیلئے محترک رہتا ہے۔یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ ریاست میں مالی و اقتصادی بدحالی کی وجہ سے مرکزی اسکیم ایس ایس اے اور رمسا کے تحت 15سو روپے پر رہبر تعلیم کے نام پر استادوں کی بھرتی عمل میں لائی گئی اورباضابطہ طورایک معاہدہ کے تحت پانج سال سے زیادہ عرصہ تک مذکورہ اساتذہ نے تن دہی کے ساتھ کام کرکے سرکاری اسکولوں کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے میں کلیدی رول ادا کیا جو قابل تحسین ہے۔پانچ سال کے بعد ان کی مستقلی معاہدہ کے مطابق یقینی بنائی گئی لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پران کی ماہنا تنخواہیں بند رکھی گئی جس سے ان کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ساتویں پے کمیشن کے اعلان کے دوران ایس ایس اے اور رمسا کے تحت کام کرنے والے اساتذہ کو مستثنیٰ رکھا گیا ان دونوں مسائل کو لیکر رہبر تعلیم اساتذہ سرینگر کی پرتاب پارک میں آج ایک بار پھر گذشتہ کئی دنوں سے بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں اگر چہ کئی ٹریڈ یونین لیڈران بھی ان کی ہمت افزائی کیلئے ان کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں لیکن ان کی آواز بزور بازو دبائی جارہی ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جنرل لائن ٹیچر جن کی پروموشن کے بعد ان کو ایس ایس اے یا رمسا کے تحت چلنے والے اسکولوں کے لئے بطور ہیڈ ٹیچر تعینات کیا گیا ان کو بھی اسی زمرے میں لاکر پریشانیوں میں دھکیل دیا گیا جو سرکار کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آخر کس گناہ کی پاداش میں ان کو یہ سزا بھگتنا پڑتا ہے ؟محکمہ تعلیم میں عرصہ دراز سے کام کررہے ان ایس ایس اے یارمسااساتذہ کو محکمانہ ضوابطے کے تحت کام کرنا ہے تو تنخواہوں اور دیگر مراعات کے حوالے سے الگ کیوں رکھا جارہا ہے ۔ٹھیک ہے کہ سرکار نے مرکزی اسکیم کے تحت ہی ان کو تعینات کیا ہے ۔اسکیم میں اگر کسی قسم کی کوئی فراڈ یا کوتاہی ہوئی ہے تو اس کا خمیازہ ان اساتذہ کو کیوں بھگتنا پڑے گا ۔کیا سرکار اپنی کمزوریوں کو چھپانے کیلئے ان اساتذہ کو ڈھال بنارہے ہیں ؟ اساتذہ اپنے مراعات ومطالبات کیلئے ہڑتال پر جاکر اسکولوں پر تالا چڑھاتے ہیں جہاں قوم کی نئی نسل زیر تعلیم ہے ان کا قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے جس سے ان بچوں کا مستقبل دائو پر لگ چکا ہے ۔ سرکار کی غلط پالیسی اور اساتذہ کی ہڑتال سے قوم کی نئی نسل کا مستقبل تباہ ہورہا ہے اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اساتذہ اور سرکار کی آپسی لڑائی سے براہ راست ہمارا سماج متاثر ہورہا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی نسل کے مستقبل کو بچانے کیلئے سرکار ان اساتذہ کے جائز مطالبات کو حل کرنے کیلئے ٹھوس اور موثر اقدامات اٹھائیں ۔تاکہ ہمارے سماج کے بچوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچ جائے۔

Comments are closed.