مسلم حکمران اور ذرائع ابلاغ اخلاقیات کا درس دیں، خطبہ حج

مکہ المکرمہ: ڈاکٹر شیخ حسین بن عبدالعزیز آل الشیخ نے خطبہ حج دیتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ سے ڈرو اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ کرو اور تمام انبیاء نے اپنی قوموں سے بھی یہ کہا کہ صرف اللہ کی عبادت کرو۔

سعودی عرب میں حج کے رکن اعظم وقوف عرفہ کی ادائیگی کے لیے لاکھوں عازمین میدان عرفات میں موجود ہیں جہاں مسجد نبوی کے امام شیخ حسن بن عبدالعزیز آل الشیخ نے خطبہ حج دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی نے قرآن میں کہا ہے کہ تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم فلاح پاسکو۔

انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرو اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہارا رب واحد ہے، دو نہیں صرف ایک ہی خدا ہے۔

شیخ حسین بن عبدالعزیز نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں اور اللہ نے قرآن میں بتا دیا کہ رسول اللہ کو تمام انسانوں کے لیے بھیجا تاکہ وہ انہیں بشارت دے سکیں۔

خطبہ حج میں کہا گیا کہ اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں، نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں کیونکہ نماز برائیوں اور بے حیائیوں سے روکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ ہم کسی بھی نیک عمل کو ضائع نہیں ہونے دیں گے، اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ نماز قائم کرنے اور زکوۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ جو ہم عمل کریں گے روز قیامت اس کا صلح پائیں گے۔

خطبہ حج میں کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے 5 ویں رکن میں جج کا ذکر کیا اور حج اس صاحب استطاعت پر فرض کیا گیا، رسول اللہ نے فرمایا کہ جس نے حج ادا کیا اور کوئی غلط کام نہیں کیا تو جب وہ واپس لوٹتا ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے ابھی آیا ہو۔

اللہ کے نبی صلی اللہ علی وسلم کے اخلاق کے حوالے سے مفتی اعظم نے اپنے خطبے میں حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کو اللہ کے نبی کے اخلاق کے بارے میں معلوم کرنا ہے تو وہ قرآن کی تلاوت کرے۔

احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بہترین شخص وہ ہے جس کا اخلاق سب سے بہتر ہے، جو لوگو قرآن و حدیث کی پیروی کرتے ہیں، شریعت میں بدعت سے دور رہتے ہیں ان کے لیے آخرت میں بہترین صلح ہے۔

انہوں نے خطبہ حج دیتے ہوئے کہا کہ اللہ کا ارشاد ہے کہ ہمیشہ صادقین کا ساتھ دو، کسی جھوٹے کا ساتھ نہ دو اور ایسا کرو گے تو کامیابی تمھارے قدم چومے گی۔

خطبہ حج میں کہا گیا کہ اللہ کی جانب سے حکم دیا گیا ہے کہ اپنے والدین، پڑوسیوں، رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک رکھنا اور اپنی رعایا کے ساتھ بھی اچھا معاملہ رکھنا، اللہ کی جانب سے یہ بات واضح کر دی گئی کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھی گفتگو کرنا اور ان کے ساتھ اف بھی نہیں کرنا اور ان کے لیے دعا کرتے رہنا۔

شیخ حسین بن عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ اللہ کے نبیﷺ نے عرفات میں جو خطبہ دیا اس میں کہا گیا کہ اپنی بیویوں کے ساتھ نرم سلوک روا رکھنا، اللہ نے ارشاد فرمایا کہ انصاف کرنا، اور ناپ تول میں کمی نہ کرنا، کیونکہ یہ جہنم میں لے جانے والی چیزیں ہیں۔

خطبہ حج دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللہ کا ارشاد ہے کہ اپنے آپ کو غیبتوں سے بچنے، تکبر سے بچنے کی کوششیں کرنی چاہیے،یہ قرآن ہمیں راہِ حق کی جانب گامزن کرتا ہے ، جس کی ہمیں تلاوت کرنی چاہیے اور اسے اپنے نظام میں شامل کرنا چاہیے۔

اخلاق کے حوالے سے خطبہ حج دیتے ہوئے کہا گیا کہ لوگوں کو اچھے اخلاق کی وجہ سے بہت سے کامیابیاں حاصل ہوئیں، میں مسلم حکمرانوں، والدین، اساتذہ، ذرائع ابلاغ کو نصیحت کروں کا کہ آپ اخلاق کی بات کریں اور اخلاقیات کا درس دیں، ایسے اخلاق جس سے ہم دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی حاصل کرسیں۔

انہوں نے کہا کہ اے دنیا بھر کے بزرگوں، ماؤں، بہنوں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ ہم اپنے اخلاق کو بہتر کر لیں۔

خطبہ حج دیتے ہوئے کہا گیا کہ اللہ کے نبیﷺ نے عرفہ کے دن حضرت بلالؓ کو آذان دینے کا حکم دیا اور ظہر کے وقت 2 رکعات قصر ادا کی اور پھر عصر کے وقت اذان کا حکم دیا اور 2 رکعات قصر ادا کی اور پھر مغرب کے وقت تک اپنی اونٹنی پر بیٹھے رہے۔

مناسک حج
مناسکِ حج کی ادائیگی کا سلسلہ 8 ذوالحج سے شروع ہوتا ہے جو 12 ذوالحج تک جاری رہتا ہے۔

8 ذوالحج کو عازمین مکہ مکرمہ سے منیٰ کی جانب سفر کرتے ہیں اور رات بھر عبادت کرتے ہیں۔

9 ذوالحج کو فجر کی نماز کے بعد عازمینِ حج منیٰ سے میدانِ عرفات کے لیے روانہ ہوتے ہیں، جہاں وقوفہ عرفہ کی ادائیگی کی جاتی ہے۔

عرفات میں غروبِ آفتاب تک قیام لازمی ہے اور اس کے بعد حجاج کرام مزدلفہ کے لیے روانہ ہوتے ہیں، جہاں پر مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں اور رات بھر یہاں قیام لازم ہوتا ہے۔

10 ذوالحج قربانی کا دن ہوتا ہے اور عازمین ایک مرتبہ پھر مزدلفہ سے منیٰ آتے ہیں، جہاں قربانی سے قبل شیطان کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔

مزدلفہ سے منیٰ کا فاصلہ تقریباً نو کلو میٹر ہے اور یہاں پر عازمین مخصوص مناسک کی ادائیگی کرتے ہیں اور اس کے بعد حجاج کرام مکہ مکرمہ جاکر ایک طوافِ زیارت کرتے ہیں اور منیٰ واپس آجاتے ہیں۔

11 اور 12 ذوالحج کو تمام مناسک سے فارغ ہونے کے بعد عازمین ایک مرتبہ پھر مکہ مکرمہ جا کر مسجد الحرم میں الوداعی طواف کرتے ہیں۔

Comments are closed.