سرینگر:سی پی آئی ایم کے سینئر رہنما و ممبراسمبلی کولگام محمد یوسف تاریگامی نے نئی دہلی کی کشمیر پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ گورنر ستیہ پال ملک کا یہ تسلیم کرناقابل ستائش ہے کہ ہندوستان نے غلطیاں کی ہیں جس سے وادی کے لوگوں میں غم وغصہ بڑھاہے ۔
ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تاریگامی نے کہاکہ اس کے برعکس نئی دہلی میں بھاجپا کی قیادت والی سرکار ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے سے انکار کررہی ہے اوراس کی پالیسیوں کے نتیجہ میں پچھلے چار برسوں میں یہ غم وغصہ اور بڑھاہے اور لوگوں میں پائی جارہی بداعتمادی میں اضافہ ہواہے ۔
انہوں نے کہاکہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ان غلطیوں کو نہ دہرایاجائے تاہم حقیقت یہ ہے کہ ان غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا اور صاحب اقتدار کے متکبرانہ رویہ کے باعث صورتحال مزید پیچیدہ بن گئی ہے ۔
ان کاکہناتھاکہ اس مرحلے پر ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے مگر موجودہ حکومت کا کشمیر کے تئیں ریکارڈ نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ یہ آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہے ۔تاریگامی نے کہاکہ سب سے پہلا قدم یہ ہوناچاہئے کہ نئی دہلی کشمیر کو ایک سیاسی مسئلہ سمجھے نہ کہ ایک سیکورٹی مسئلہ ۔ تاہم انہوں نے کہاکہ جب موجودہ حکومت کی کشمیرپالیسیوں کا تجزیہ کیاجائے تو پتہ چلتاہے کہ بھاجپا کی قیادت والی اس سرکا رنے ابھی تک آئین کی دفعہ 370اور 35اے کو بھی تسلیم نہیں کیا اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ دفعہ 370کے تحت ریاست کو ہندوستان کی طرف سے دی گئی خود مختیاری آہستہ آہستہ ختم کی گئی ۔
تاریگامی نے کہاکہ بی جے پی کیلئے کشمیر ایک ایسا آلہ ہے جس سے ملک بھر میں جذبات کو اکھٹاکر ووٹ بینک حاصل کیاجارہاہے اور اس جماعت کو یہ احساس کرناہوگاکہ جموں و کشمیر کا پیچیدہ مسئلہ اس طرح کے فرقہ وارانہ ایجنڈے سے حل نہیں ہوسکے گا،وادی کے لوگوں کو مسئلے کے سیاسی حل کیلئے سیاسی مذاکرات پر بھی اتنا زیادہ بھروسہ نہیں جس کی وجہ مودی حکومت کے 2014میں انضمام اقتدار سنبھالنے کے بعد یہاں کے حالات کا بتدریج بگڑناہے ۔
انہوں نے کہاکہ سخت گیر سیکورٹی موقف اپنانے اور مظاہروں کو کچلنے کیلئے طاقت کے استعمال سے صرف ملی ٹینسی کو بڑھاواملے گاجس نے کئی نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کیاہے۔تاریگامی کاکہناتھاکہ کشمیر کی تاریخ جمہوریت سے انکار کی تاریخ ہے ،یہ توڑے جانے والے وعدوں اور یقین دہانیوں کی تاریخ ہے اور نئی دہلی میں حکومت کرنے والوں نے جموں وکشمیر کے ان حقوق کو تسلیم نہیں کیاجو اسے ملک کی تقسیم و آزادی کے وقت ملے تھے ۔سی پی آئی ایم رہنما نے کہاکہ بڑی سیاسی جماعتوں کی مخالفت کے باوجود حکومت نے ریاست میںبلدیاتی و پنچایتی چناﺅ کا فیصلہ ایسے وقت میں نافذ کیا جب ماحول اس چناﺅ کیلئے موزوں نہیں ۔ انہوں نے کہاکہ سیاسی جماعتوں نے انتخابات پر بشمول 35اے کے تحفظ سمیت کچھ تحفظات کا اظہار کیا اور ریاست خاص کر وادی میں بلدیاتی چناﺅ کا انعقاد آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہوسکتاہے ۔
تاریگامی کاکہناتھاکہ اختیارات کی بنیادی سطح پر منتقلی اور پنچایتی و بلدیاتی اداروں میں حکمرانی کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے کہیں کوئی دو رائے نہیں پائی جارہی لیکن اس کیلئے لوگوں کی شرکت معنی خیز ہے جو اس وقت دیکھی نہیں جارہی ۔ان کاکہناتھاکہ چناﺅ کے اس عمل میں سیاسی جماعتوں اور لوگوں کو نظرانداز کرنے سے مستقبل میں ریاست کے جمہوری نظام پر سنگین نتائج برآمد ہوںگے ۔
سی پی آئی ایم رہنما نے کہاکہ اگر نوجوانوں میں پائے جارہے غم وغصہ کو کم کرنے کیلئے موجودہ انتظامیہ کی کوئی ترجیح ہے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو صاف طور پر یہ ہدایت دی جانی چاہئے کہ طاقت کا بے جااستعمال نہ کیاجائے ،اندھا دھند گرفتاریوں ،مقدمات درج کرنے اور پبلک سیفٹی ایکٹ کے نافذ پر روک لگائی جائے تاہم فی الوقت سب کچھ گورنر کے بیان کے بالکل منافی ہورہاہے ۔
Comments are closed.