مذاکرات کی پیشکش ،خوش آئند
پاکستان میں انتخابات منعقد کئے گئے تشکیل حکومت سے قبل وزیر اعظم عمران نے ایک پْر ہجوم پریس کانفرنس میں جہاںپاکستان کی بقاء وترقی کی بات کی وہیں بھارت کو دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی پیشکش کی اور مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل کیلئے مذاکرات کا آغاز کرنے کی بھی پیشکش کی۔اس کے رد عمل میں بھارت نے کہاکہ وہ مستحکم اور پْرامن پاکستان کا خواہاں ہے اور اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے او ر امید ظاہرکی کہ پاکستان کی نئی حکومت جنوب ایشائی خطے میں امن واستحکام اور ترقی کیلئے کام کرے گی۔اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دونوں ملک جنجیریں کاٹنے اور روابط استوار کرنے کے متمنی ہیں جبکہ ریاست جموں وکشمیر کی تمام مزاحمتی ،سیاسی وسماجی لیڈران اور عوام بھی ہندوپاک کے بہتر تعلقات چاہتے ہیں کیونکہ دونوں ملکوں کی دوستی سے مسائل حل ہونے کا قوی امکان ہے اس کیلئے نیت خلوص کا ہونا لازمی ہے اگر ماضی کے دریچوں کو کھولا جائے تو اس قبل بھی ایسی باتیں کہیں گئیں جس سے مثبت نتائج سامنے کی امید کی جاتی تھی لیکن اس حوالے سے وہ فضول مشق ثابت ہوئے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات برصغیر کے امن وماں کیلئے ایک ضمانت ہے لیکن یہ صرف باتیں ہی رہ چکی ہیں کیونکہ دونوں ملکوںکے درمیان ایسی دوریاں پڑی ہیں کہ ان ملکوں کے حکمران یا سیاستدان ایک دوسرے کے ساتھ نظریں بھی نہیں ملاتے ہیں اور ہاتھ ملانا دور کی بات ہے ۔حالانکہ بھارت میں جب نر یندرمودی نے وزارت اعظمیٰ کا عہد ہ سنبھالا تو اس وقت اس نے پاکستان کے تعلقات بہتر بنانے اور روابطہ استوار کرنے کی دہائی دی جبکہ اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف کو حلف برداری تقریب پر مدعو کیا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ دونوں ہمسایہ ملک جو بچھڑے ہوئے تھے قریب آگئے ۔اب مسائل کا حل بھی ممکن بن جائے گا لیکن جب سارک کانفرنس ہوئی تو اس وقت دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کی زحمت گوارا نہیں کی ۔جس سے مزید دوریاں پڑگئیں اور حالات نے بھی سنگین رخ اختیار کیا ۔سرحدوں پر جنگ جیسی صورتحال پیدا ہوئی ۔ریاست میں ملٹنسی کا گراف بڑھنے لگا اور زیادہ سے زیادہ جانیں تلف ہونے لگی ۔یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان دوری اور اختلافات ریاست جموں وکشمیر کے لوگوں کے لئے باعث عذاب ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ہندوپاک کی آپسی دشمنی سے مسائل کا حل ممکن نہیں بلکہ تباہی کا موجب ہے ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں تشکیل حکومت کے بعد کشمیری عوام کی امیدیں ایک بار پھر بڑھ گئی ہیں کیونکہ نو منتخب وزیر اعظم عمران خان نے ابتدائی مرحلہ میں دوستانہ تعلقات قائم کرنے کا دعوے کیا اوردنیا کا کوئی بھی شخص تصادم نہیں بلکہ امن وسکون اور حقوق کی پاسداری چاہتا ہے ۔کشمیر ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے گذشتہ 70سال سے بالعموم اور 29سال سے بالخصوص ایسے دلدوز واقعات پیش آئے جس سے درد دل رکھنے والے انسانوں کے رونگٹھے کھڑا ہوجاتے ہیں ۔اس دوران لاکھوں کی جانیں تلف ہوئیں اور گھروں کے گھر اجڑ گئے ۔لیکن دونوں ملکوں کے حکمران یہ سب کچھ دیکھ کر بھی خاموش تماشائی بن بیٹھے ہیں ۔اب ضرورت اس بات کی ہے پاکستان کے نومنتخب وزیر اعظم عمران خان اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی جنوب ایشاء خطے میں قیام امن کیلئے اپنا کردار ادا کریں اور مذاکرات کا آغاز کرکے تمام مسائل بشمول جموں وکشمیر کا مسئلہ حل کریں تاکہ قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے
Comments are closed.