لڑکیوں کے جسم پر ملے جلنے۔ کٹنے کے نشان، عصمت دری سے پہلے لگایا جاتا تھا نشہ کا انجکشن

لڑکیوں کے جسم پر ملے جلنے۔ کٹنے کے نشان، عصمت دری سے پہلے لگایا جاتا تھا نشہ کا انجکشن

گزشتہ دنوں بہار کے مظفر پور، چھپرا اور حاجی پور کے شیلٹر ہوم میں 21 بچیوں کے ساتھ ریپ کا واقعہ سامنے آیا۔ یہ پورا معاملہ تب روشنی میں آیا جب ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس (ٹی آئی ایس ایس) کی آڈٹ رپورٹ سامنے آئی جو 31 مئی کو بہار حکومت کو سونپی گئی۔ اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اس شیلٹر ہوم میں چھوٹی چھوٹی بچیوں کا استحصال کیا جاتا رہا ہے۔

ٹی آئی ایس ایس کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق، بچیوں کی طبی جانچ میں ان کے جسم کے کئی حصوں پر جلنے اور کٹنے کے نشانات بھی ملے ہیں۔ آڈٹ کی رپورٹ کے مطابق بچیوں کو ہر دن جنسی زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ طبی رپورٹ کے مطابق، جنسی تشدد سے پہلے لڑکیوں کو نشہ کی دوائیں دی جاتی تھیں یا پھر نشہ کا انجکشن لگایا جاتا تھا۔

آپ کو بتا دیں کہ ٹی آئی ایس ایس نے سات مہینوں تک 38 اضلاع کے ایک سو دس اداروں کا سروے کیا ۔ اس سروے میں ایک حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ استحصال کی شکار تمام بچیاں 18 سال سے کم عمر کی ہیں۔ ان میں سے اکثر 13 سے 14 سال کی عمر کے درمیان ہیں۔ اس رپورٹ سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ مظفرنگر شیلٹر ہوم میں ہوئی جنسی زیادتی میں چائلڈ ویلفیئر کمیٹی کے اراکین اور تنظیم کے سربراہ بھی بچیوں کے ساتھ جنسی استحصال میں ملوث تھے۔

دراصل، ضلع میں حکومت کی زیر نگرانی چل رہے اطفال گھر میں گڑبڑی کی خبریں ریاستی حکومت کو کافی وقت سے مل رہی تھیں۔ اطفال گھر میں رہنے والی بچیوں نے اپنے ہی ادارہ کے لوگوں پر جنسی زیادتی اور تشدد کا الزام لگایا تھا۔ اس خبر کو پختہ کرنے کے لئے حکومت نے ممبئی کے معروف ادارہ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس کو آڈٹ کا کام دیا تھا۔ 7 ماہ کی تحقیق کے بعد ادارہ نے 31 مئی کو حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کی جس میں یہ چونکانے والے انکشافات ہوئے۔

Comments are closed.