ے اہل خانہ تاہنوز اپنے لخت جگر کی بازیابی کیلئے فوجی کیمپوں کی خاک چھان مار رہے ہیں
سرینگر 10ستمبر/سی این ایس/ سرحدی ضلع کپوارہ کے دیور لولاب میں ایک سال قبل فوجی حراست میں لاپتہ ہوئے نوجوان منظور احمد خان کے اہل خانہ تاہنوز اپنے لخت جگر کی بازیابی کیلئے فوجی کیمپوں کی خاک چھان مار رہے ہیں،تاہم یاس اور ناامیدی کے بغیر انکے ہاتھ کچھ نہیں آرہا ہے۔ انٹرنیشنل فورم فار جسٹس نے دیوار لولواب میں گزشتہ برس دوران حراست گمشدہ ہوئے نوجوان منظور احمد خان کے حوالے سے ایک رپورٹ ترتیب دیا ہے،جس میں کہا گیا ہے کہ منظور احمد خان31اگست کو دیور لولاب سے اپنے چاچا جلاس الدین اور مویشیوں کے ہمراہ بانڈی پورہ گیا۔ان کا کہنا ہے کہ آلوسہ پہنچنے کیلئے دیور کے لوگوں کو27آر آر کے کیمپ جو کہ تری مکھ پہاڑیوں پر قائم ہے،سے گزرنا پڑتا ہے،اور وہاں پر اپنے نام کا اندراج کرنا پڑتا ہے۔رپورٹ کے مطابق منظور نے کمپ سے رابطہ کیا،اور اپنے چاچا اور چاچی کی شناختی کارڑ لیکر تری مکھ کیمپ گیا،جبکہ نام کا اندراج کرنے کے دوران27آر آر کے میجر نشانت نے انہیں کیمپ کے اندر طلب کیا۔رپورٹ میں ہائی کورٹ میں دائر عرضی کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا گیا ہے کہ اس دوران منظور احمد خان کے چاچا اور چاچی2گھنٹے تک کیمپ کے باہر انتظار کرتے رہے،اور اس کے بعد انہوں نے متعلقہ فوجی افسر کے ساتھ رابطہ قائم کیا،تاکہ منظور احمد کے بارے میں پتہ لگایا جاسکے۔ عرضی میں مزید تحریر کیا گیا ہے کہ27آر آر تری مکھ پوسٹ کے افسران نے ان سے کہا کہ منظور احمد خان کو کچھ دیر بعد چھوڑ دیا جائے گا،تاہم شام تک انتظار کرنے کے باوجود منظور احمد کو نہیں چھوڑا گیا۔رپورٹ کے مطابق منظور کے رشتہ دار ابھی اسکا انتظار کر رہی رہے تھے کہ انہوں نے ایسا ہی ایک اور کیس بھی دیکھا،جس میں نصر اللہ خان کو بھی فوجی کیمپ کے اندر مذکورہ میجر نے پہنچایا تھا۔عرضی میں کہا گیاہے’’نصر اللہ خان کو بعد میں رہا کیا گیا اور انکے اہل خانہ کے سپرد کیا گیا،جبکہ نصر اللہ کو شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا،اور وہ چلنے کے قابل نہیں تھا،اور انہیں صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ پہنچایا گیا۔محمد اسلم نے بتایا کہ فوج نے شام کو منظور کے انتظار کر رہے رشتہ داروں کو بتایا کہ انہیں کیمپ کے عقبی گیٹ سے رہا کیا گیا،اور وہ انکے پاس نہیں ہے‘‘۔اس کے بعد منظور کے والد اور رشتہ داروں نے پولیس سے رابطہ قائم کر کے کیس درج کیا۔ واقعے کے بعد فورم نے ریاستی انسانی حقوق کے کمیشن سے رجوع کیا،جبکہ ہائی کورٹ میں بھی عرضی دائر کی گئی،جس کے دوران ریاستی ہائی کورٹ نے حکومت سے اس کیس سے متعلق تازہ رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ کیس کے بارے میں عدالت کو تفصیلات سے آگاہ کریں۔عدالت نے پہلے ہی پرنسپل سیکریٹری داخلہ اور ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کے علاوہ27آر آر کے میجر نشانت گپتا کے نام نوٹسیں جاری کی ہے۔کیس کی سماعت کے دوران اسسٹنٹ سولسٹر جنرل آف انڈیا طاہر ماجد شمسی نے عدالت کو کہا کہ منظور احمد فوج کی تحویل میں نہیں ہے۔ اس دوران پولیس نے بشیری حقوق کے ریاستی کمیشن میں اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ31اگست2017کو جلا الدین خان ولد سکندر خان ساکن دیور لولاب نے پولیس تھانہ لالپورہ کپوارہ میں ایک تحریری شکایت درج کی۔رپورٹ کے مطابق شکایت گزر نے تحریر طور پر کہا کہ31اگست2017کو وہ اپنے بھتیجے منظور احمد خان ولد غلام قادر اور ہمشیرہ پروینہ کے ہمراہ ترمکھ بہک گئے،کہاں وہ موسم گرما میں رہتے تھے۔شکایت گزار کا کہنا تھا کہ منظور احمد کو کیمپ میں بند رکھا گیا،اور انہیں خدشات ہیں اس کو مار دیا جائے گا،جبکہ اس سارے واقعے کے پیچھے میجر نشانت کمار ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس کو31اگست کوشام کے10بجکر45منٹ پر یہ خبر ملی کہ ایک شہری نصر اللہ خان ولد شریف کاقن ساکن دیور لولاب کو ترمکھ بہک سے سے مقامی لوگوں نے تشویشناک حالات میں سب ڈویژن اسپتال سوگام لایا۔رپورٹ کے مطابق خبر ملتے ہی پولیس کو وہاں روانہ کیا گیا اور ابتدائی تحقیقات کے دوران پتہ چلا کہ نصر اللہ ترمکھ ٹاپ پر بہک میں گیا تھا،اور حسب معمول فوجی کیمپ میں اپنیاپنا نام درج کرنے کیلئے،تاہم انہیں زبردستی کیمپ میں پہنچایا گیا،اور وہاں پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔رپورٹ کے مطابق بعد میں لوگوں کی طرف سے اس سلسلے میں زبردست شور مچانے کے بعد انہیں کیمپ کے عقب سے زخمی حالت میں باہر پھینک دیا گھیا،جبکہ پولیس نے اس سلسلے میں ایک ایف آئی آر زیر نمبر62/2017درج کیا،جبکہ مذکورہ شہری کو بعد میں صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ منتقل کیا گیا۔پولیس نے جو رپورٹ پیش کی ہے،اس میں کہا گیا ہے کہ نصر اللہ کو ممکنہ طور پر کیمپ کے اندر لایا گیا اور غلط طریقے سے انہیں زبردست طریقے سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا،تاکہ اس کو موت کی نیند سلا دیا جائے۔پولیس کی طرف سے انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن میں پیش کئے گے رپورٹ میں کہا گیا،اس سلسلے میں ایڈیشنل سپر انٹنڈنٹ آف پولیس ی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی ٹیم دی گئی،جنہوں نے جائے واقع کا دورہ کیا،اور گواہوں کے بیانات بھی قلمبند کرایں۔پولیس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ فوج کے ساتھ کافی خط و کتابت اور کوششوں کے بعد فوج نے مذکورہ آرمی افسر کو8 سیکٹر کے ہیڈ کواٹر لولاب میں پیش کیا،جہاں خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے ان سے پوچھ تاچھ کی،تاہم مذکورہ فوجی افسر نے اس کیس میں کسی بھی طرح ملوث ہونے سے انکار کیا۔رپورٹ کے مطابق تاہم فوج کی مذکورہ یونٹ نے اب تک خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے ترمکھ فوجی کیمپ کے گیٹ نمبر ایک کی اندراج سے متعلق داخلی اور اخراجی راجسٹر،جو ان سے طلب کی گئی تھی،پیش نہیں کی۔منظور احمد کا نکاح6ماہ قبل ہوا تھا،اور ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی،جبکہ مہر النساء نامی اس لڑ کی کا کہنا ہے کہ وہ عمر بھر منظور کا انتظار کریں گی۔
Comments are closed.