رواں تحریک عظیم اثاثے سے محروم ہوگئی :مشترکہ مزاحمتی قیادت
جمعہ کو ریاست بھر میں ہڑتال کرنے کی اپیل
مشترکہ مزاحمتی قائدین سید علی گیلانی ، میرواعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے دوران تھانہ و خانہ نظر بندی اپنے ایک بیان میں شاٹھ گنڈ قلم آبادہندوارہ میں ایک عسکری معرکے کے دوران جاں بحق کئے گئے سرکردہ عسکریت پسند اور اسکالر ڈاکٹرمنان بشیر وانی اور اس کے ساتھی عبدالغنی خواجہ کو خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر منان بشیر وانی جو نہ صرف ایک ممتاز اسکالر تھے بلکہ موصوف ایک ادیب اور نامور قلمکار تھے،کے جاں بحق ہونے سے رواں تحریک آزادی ایک عظیم اثاثے سے محروم ہو گئی ہے۔
قائدین نے ڈاکٹر منان بشیر وانی کی قربانی کو تحریکی صفوں میں ایک زبردست نقصان قرار دیتے ہوئے اس سانحہ کیخلاف 12 اکتوبر 2018 بروز جمعتہ المبارک کو پورے جموںوکشمیر میں مکمل احتجاجی ہڑتال کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر جہاں رواں تحریک آزادی کے ساتھ یہاں کی چوتھی نسل جڑ چکی ہے میں پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا عسکریت کی جانب رجحان دراصل بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے اور جس طرح ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت طاقت اور تشدد کے بل پر یہاں کی نوجوان نسل کو پشت بہ دیوار کرنے کا عمل جاری ہے اُس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں کے عوام کو اب زیادہ دیر تک طاقت اور فوجی جماﺅ کے بل پر نہ تو دبایا جاسکتا ہے اور نہ ان سے انکا جذبہ حریت چھینا جاسکتا ہے۔
قائدین نے میمندر شوپیاں میں ایک حریت پسند کارکن طارق احمد گنائی کی نامعلوم بندوق برداروںکے ہاتھوں ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے قبل بھی کئی حریت نوازافراد کو نامعلوم بندوق برداروں کے ہاتھوں جاں بحق کیا جاچکا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ کوئی نامعلوم قوت یہاں ایک منصوبے کے تحت حریت پسندوں کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنا رہی ہے تاہم اس طرح کے واقعات سے نہ تو حریت پسند کارکنوں اور عوام کے حوصلوں کو توڑ ا جاسکتا ہے اور نہ رواں تحریک آزادی کا رُخ موڑا جاسکتا ہے ۔
اس دوران قائدین نے جنوبی کشمیر کے متعدد علاقوں ریڈونی ، قیموہ، کولگام، شوپیاں اور سرینگر شہر کے علمگری بازار کھونہ کھن نزدیک ٹرانسپورٹ یارڈ اور دیگر کئی مقامات پر نئے سرے سے فوجی کیمپ اور فورسز کے بینکر تعمیر کئے جانے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جموںوکشمیر کے شہر و گام میں لاکھوں کی تعداد میں تعینات فوج اور فورسز پہلے ہی یہاں کے نہتے اور مظلوم عوام کے جان و مال کیلئے خطرہ بنے ہوئے ہیں اور اب کے مزید فوجی کیمپوں اور بنکروں کی تعمیر کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہاں کے عوام کو فوج اور فورسز کے رحم و کرم پر چھوڑ کر لوگوںکا عرصہ حیات تنگ کیا جائے ۔
قائدین نے کہا کہ جموںوکشمیر دنیا کا واحد سب سے زیادہ فوجی جماﺅ والا علاقہ ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں تعینات فوج اور فورسز خود کو حاصل بے پناہ اختیارات کے بل پر کسی جواب دہی کے عمل سے مبرا ہوکر نہتے عوام کو اپنے مظالم اور تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور جب چاہیں اور جہاں چاہیں لوگوں کو نشانہ بنا کر ان کی زندگی کا چراغ گل کر دیتے ہیں
قائدین نے کہا کہ جنوبی کشمیر کے کئی علاقوں میں نئے فوجی کیمپوں کی تعمیر کی وجہ سے مقامی لوگ عدم تحفظ کا شکار ہوکر ترک سکونت پر مجبور ہو گئے ہیں اور لوگوں کے احتجاج کے باوجود ریاستی حکمران من مانی کارروائیوں میں مصروف ہےں۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح سرینگر شہر جہاں پہلے ہی سے فوجی کیمپوں اور بنکروں کا جال بچھا ہوا ہے اب نئے بنکر کی تعمیر سے شہر کو مکمل طور پر فوجی چھاﺅنی میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ہندوستان جموںوکشمیر پر اپنے ناجائز تسلط کو دوام بخشنے کیلئے کسی نہ کسی بہانے فوج اور فورسز کی تعداد میں یہاں اضافہ کررہے ہیں اور ریاست جہاں اصل میں فوج کی حکمرانی ہے عملاً ایک بڑے جیل خانے میں تبدیل ہوکر رہ گئی ہے جہاں قائدین تو کیا عوام کی آزادانہ نقل و حرکت بھی فوج اور فورسز کی اجازت کی مرہون منت ہے ۔
انہوں نے اس صورتحال کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے مستند بین الاقوامی حقوق انسانی کی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ اس کا سنجیدہ نوٹس لیں اور جموںوکشمیر میں فوج اور فورسز کے ہاتھوں ہو رہی بنیادی انسانی حقوق کی بے دریغ پامالیوں کو روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
Comments are closed.