دفعہ 35 اے پر لوگوں میں برابر تشویش:عمر عبداللہ

ملک کی باقی ریاستوں کا جموں و کشمیر کیساتھ مقابلہ نہیں کیا جاسکتا:عمر عبداللہ

سرینگر:’سپریم کورٹ میں ایسا پروپیگنڈا چلایا جارہا ہے کہ صرف کشمیر کا مسلمان دفعہ35Aکو بچانے نکلا ہے ،جموں کا ہندو، لداخ کا بودھ یا باقی مذاہب کے لوگ، چاہے وہ کشمیر پنڈت ہو یا پھر سردار، اس دفعہ کے خلاف ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جموں کے لوگ بھی یہ مان کر چل رہے ہیں کہ 35اے کو اُٹھانا اُن کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگااور یہی تاثر کرگل اور لداخ میں پایا جارہا ہے، لوگوں میں اس دفعہ کو لیکر گھبراہٹ اور تشویش ہے، اب تو بھاجپا کے ممبرانِ اسمبلی بھی کُھل کر دفعہ35Aکے دفاع کیلئے سامنے آگئے ہیں، یہ کوئی معمولی بات نہیں“۔ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے آج پارٹی ہیڈکوارٹر پر صوبائی سطح کے ایک غیر معمولی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اجلاس میں جنرل سکریٹری علی محمد ساگر کے علاوہ صوبہ کشمیر کے تمام لیڈران، عہدیداران، ممبرانِ قانون سازیہ، انچارج کانسچونسیز اور ضلع صدور موجود تھے۔ اجلاس میں ریاست کی موجودہ سیاسی صورتحال، امن و قانون کے حالات، لوگوں کے مسائل و مشکلات، پارٹی سرگرمیوں اور خاص کر دفعہ35اے سے متعلق لوگوں میں پائے جارہے خدشات کے معاملات زیر بحث آئے۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ 27اگست کو 35اے نہیں ہٹایا جائے گا، اس روز سپریم کورٹ یہ فیصلہ کریگی کہ آیا یہ کیس پانچ رکنی بنچ کو سونپ دیا جائے یا پھر اس پر مزید بحث کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے قبل سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ نے 2بار 35اے پر اپنا فیصلہ صادر کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ”ریاست میں صحیح سوچ رکھنے والے لوگ، چاہے وہ لداخ میں ہیں، جموں میں ہیں یا پھر کشمیر میں، وہ یہ جانتے ہیں کہ 35Aکو اُٹھانا انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگا۔لداخ کے اکثریتی لوگوں کو یہ بات مکمل طور پر سمجھ آگئی ہے کہ اگر یہ دفعہ ختم ہوگئی تو کشمیر کوئی آئے یا نہ آئے لیکن لداخ میں غیر ریاستی سرمایہ دار فٹافٹ آئیں گے اور آن کی آن میں وہاں اپنا دبدبہ قائم کردیں گے۔“ عمر عبداللہ نے کہا کہ مرکز میں بھی صحیح سوچ رکھنے والے موجود ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اگر دفعہ35A یا 370 پر بات ہوگی تو الحاق پر بھی بحث لازمی بن جائیگی کیونکہ باقی ریاستوں نے الحاق کرکے اپنی پہچان کھو ہوگی، جموں وکشمیر ایک واحد ایسی ریاست ہے جس کی اپنی پہچان آئینی طور درج ہے اور اگر اُس وقت جموں وکشمیر کی انفرادیت کو آئین میں جگہ نہ دی گئی ہوتی تو شائد مہاراجہ نے الحاق نہ کیا ہوتا۔

نائب صدر نے کہا ” ہماری ریاست کا اپنا آئین اور اپنا جھنڈا ہے، دو روز قبل جب ہائی کورٹ کی چیف جسٹس کماری گیتا متل نے حلف لیا تو انہوں نے ہندوستان کے آئین پر نہیں بلکہ جموں وکشمیر کے آئین پر حلف اُٹھایا،اس کا صاف صاف یہ مطلب ہے کہ آپ باقی ریاستوں کا جموں و کشمیر کیساتھ مقابلہ نہیں کرسکتے ہو،ملک میں ایسی کوئی بھی دوسری ریاست نہیں جہاں پر لوگ اپنے آئین پر حلف اُٹھاتے ہیں۔ “

عمر عبداللہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس صحیح سمت میں دفعہ35Aکے دفاع کیلئے کام کررہی ہے، ایک طرف گذشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے لوگوں کو ورک شاپوں، جلسوں، ریلیوں، احتجاجوں، بیانات اور دیگر ذرائع سے اس دفعہ کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ کیا جارہا ہے اور دوسری جانب عدالت کا معاملہ عدالت میں لڑکرکے اس کا دفاع کررہی ہے۔ اس کیس کی پہلی سماعت میں نیشنل کانفرنس کے وکلاءنے اپنا کام بخوبی انجام دیا اور نیشنل کانفرنس صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ مزید بین الاقوامی شہرت یافتہ وکلاءکے رابطے میں ہیں، جو سپریم کورٹ میں پارٹی کی طرف سے دائر کی گئی عرضی کی پیروی کریں گے۔

Comments are closed.