حضرت محمدؐ حسن اخلاق کے عظیم داعی

اسلامی معاشرے کا آغاز مکہ مکرمہ سے ہوا اور مدینہ منورہ میں اسکی تکمیل ہوئی. اور اس کا نور پورے عالم کو روشن کر گیا.ایک مثالی معاشرہ جو اس وقت وجود میں آیا اس کی مثال دنیا نے کبھی بھی نہیں دیکھی تھی. یہ صالح معاشرہ انسان کامل او ر رہبر کامل کے اعلیٰ کردار کے کرامت تھی. ان معجزات کی بڑی وجوہات میں حضور اکرم (ص) کا وہ اخلاق تھے جس نے عرب کے ان سنگ دلوں کو موم کی طرح پگھلا دیا. آپ(ص) نے ساری عمر مبارک میں حسن اخلاق کی اہمیت کو اجاگر کیا اور آپس میں حسن اخلاق کا معاملہ کرنے کی ہدایت دی.
جب سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ(ص) کی مقدس اور پاک زندگی کے ہر پہلو میں اعلی اخلاق کی مثالیں موجود ہیں. آپ(ص) کی پوری سیرت میں آپ(ص) کے صلح رحمی حسن کردار اور حسن اخلاق کے واقعات چھلکتے ہیں. جب آپ (ص) دیکھتے ہیں کہ معمول کے مطابق آج آپ(ص) پر کچرا اور کوڑا نہیں گرا، تو آپ (ص) کی بےچینی دیکھیں کہ آپ(ص) فوراً اس کی خبر گیری کے لیے اس کے گھر تشریف لے جاتے ہیں کہ کہیں وہ کسی مصیبت میں مبتلا تو نہیں. جب طایف میں حضور اکرم (ص) کو پتھروں سے لہولہان کر دیا جاتا ہے، آپ (ص) پر اس قَدر پتھروں ا بارش ہوتی ہے کہ آپ (ص) چل بھی نہیں پاتے، اتنے شدید زخمی ہونے کے باوجود بھی وہ بدبخت آپ(ص) پر پتھراؤ کیۓ جارہے ہیں. ایسے میں آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ آپ کہیں تو اس قوم کو پہاڑوں کے درمیان نابود کر دیں. مگر آپ(ص) یہ کیسے گوارہ کرتے کہ کسی کو بھی کوئی تکلیف پہنچے،فرشتوں سے فرماتے ہیں "یہ نہیں تو کوئی ہوگا ان کی نسلوں میں جو ایمان لائے”.
آپ نے نہ کبھی کسی پر ظلم کیا اور نہ کرنے کا حکم دیا،دوسروں کے جان اور مال کی حفاظت کرنا سکھایا، عورتوں کا مرتبہ بلند ترین سطح پر پہنچا دیا جو ان کا اصل مقام تھا، بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا،پڑوسیوں کے حقوق بتلائے، غلاموں کےساتھ احسن سلوک کرنے کی تاکید کی، مسکینوں اور محتاجوں کی حاجت روائی کرنے پر اکسایا، یتیموں پر شفقت کرنے والے کو جنت کی بشارت دی. ہاں! یہی وہ کرامتیں تھی جس کی وجہ سے ایک قلیل مدت میں عرب کی سیاہ رات پر ایک تابناک فجر طلوع ہوئی.جہاں نہ چھوٹے بڑے کی تمیز تھی، وہاں اب بڑوں کی عزت، چھوٹوں پر شفقت اور بزرگوں کا احترام ہوتا ہے. جہاں مفلس کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، اب کوئی سائل کسی کے گھر سے خالی ہاتھ نہیں لوٹتا. یہاں تک کہ اگر کسی کے گھر تین دن تک کوئی مہمان نہ آتا تو اسکی آنکھوں میں آنسو آجاتے کہ کہیں اللہ کی رحمت مجھ سے روٹھ تو نہیں گئ. اتنا پاکیزہ معاشرہ وجود میں آگیا تھا کہ تنگی کے باوجود ایثار پر قائم تھے، لینے کا نہیں بلکہ دینے کا جزبہ تھا، دوسروں کا غم اپنا غم تھا، دوسروں کا دکھ اپنا دکھ تھا، کانٹا کسی کو چبھتا تھا اور درد ہر کوئی محسوس کرتا تھا . عرب جو اس سے پہلے پوری دنیا کا سب سے گٹھیا زمین کا ٹکڑا مانا جاتا تھا، اسی زمین کے ٹکڑے سے ایک ایسا معاشرہ اگتا ہے جہاں امن و امان، بھلائی اور خیر کے ترانےر سو گونجنے لگتے ہیں.
آج کے اس غلیظ اور اخلاقی آلودگی سے بھری دنیا میں اس معاشرے کا تصور کرنا مشکل ہے جہاں حسن اخلاق کی ہوائیں چلتی تھیں. پوری دنیا اس معاشرے کے لئے ترس رہی ہے جہاں اخلاق کے پیکر پیدا ہوتے تھے .دنیا تو بےشک بہت آگے بڑھ گی، دنیا نے تو بیشک بہت ترقی کی لیکن آج دنیا کا کوئی علاقہ بلکہ دنیا کا کوئی ایسا کونا ہی نہیں جہاں اخوت اور محبت، کی صدائیں سنائی پڑتی ہوں. آج کے نام نہاد مسلمانوں کے معاشروں کی حالت جب دیکھتے ہیں تو شرم سے سر جکھ جاتا ہے. وہ جن کے اسلاف نے پورے عالم کو جہالت کے نرغے سے نکال کر روشن خیالی کی شاہراہ سے ہمکنار کروایا، آج بدکرداری اور بداخلاقی کی پستیوں میں چلے گئے ہیں. وہ جو اخلاقی خرابیوں سے دنیا کو نجات دلانے کا نسخہ جانتے تھے، خود اخلاقی خرابیوں کے دلدل میں گوتے لگا رہے ہیں. مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ پھر اپنے تابناک ماضی کا رخ کر کے ایک نئے مستقبل کی تشکیل نو کیلئے جدوجہد کریں. حضور اکرم(ص) کی تعلیمات کو محض درس و تدریس تک ہی محدود نہیں رکھنا ہےھ، بلکہ ان تعلیمات کے نور سے اپنے گھر، گلی کوچے، محلے، گاوں اور شہروں کو جگمگانے کی ضرورت ہے، پھر دیکھیں کہ حالات کیسے تبدیل ہوتے ہیں۔
تحریر: فیضان شفیع
9596128378

Comments are closed.