بی جے پی کا کشمیر میں ’بھگوت گیتا‘ اور ’رامائن‘اردو میں مفت تقسیم کرنے کا اعلان

جموں ، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جموں وکشمیر یونٹ کے صدر رویندر رینہ نے کہا کہ ان کی جماعت وادی کشمیر میں ہندو مذہب کی دو مقدس کتابیں ’بھگوت گیتا‘ اور ’رامائن‘ کو اردو میں دستیاب کرائے گی۔
انہوں نے کہا کہ وادی میں یہ کتابیں بی جے پی دفاتر پر مفت تقسیم کی جائیں گی۔

رویندر رینہ کا یہ بیان ریاستی گورنر انتظامیہ کی طرف سے ’بھگوت گیتا‘ اور ’رامائن‘ سے متعلق حکم نامہ واپس لینے کے بعد سامنے آیا ہے۔

یاد رہے کہ جموں وکشمیر میں گورنر انتظامیہ نے ہندو مذہب کی دو مقدس کتابوں ’بھگوت گیتا‘ اور ’رامائن‘ سے متعلق اپنا حکم نامہ واپس لے لیا ہے۔ حکم نامے کو اجرائی کے محض 18 گھنٹے بعد واپس لیا گیا ہے۔ سرکاری ترجمان کے مطابق حکم نامے کو ریاستی چیف سکریٹری بی وی آر سبھرامینم کی ہدایت پر واپس لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا ’محکمہ اسکولی تعلیم کی جانب سے ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن کشمیرجموں کو ارسال کردہ مراسلہ (نمبر Edu/Genl/35/2018 بتاریخ 22 اکتوبر 2018 ) چیف سکریٹری بی وی آر سبھرامنیم کی ہدایت پر واپس لے لیا گیا ہے‘۔ اس دوران جموں وکشمیر پولیس کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل پر ایک ٹویٹ میں کہا گیا ’کچھ مذہبی کتابوں کو متعارف کرانے سے متعلق محکمہ تعلیم کے سرکولر کو چیف سکریٹری کے حکم پر واپس لے لیا گیا ‘۔

کشمیر کے ایک سینئر صحافی نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ اس حکم نامے سے تنازعہ اور ممکنہ لاءاینڈ آڈر کی صورتحال پیدا ہوسکتی تھی۔ انہوں نے لکھا ’سبق سیکھ لیا گیا۔ اُس حکم نامے کو واپس لیا گیا جس سے تنازعہ اور ممکنہ لاءاینڈ آڈر کی صورتحال پیداہونے کا امکان تھا۔ ایسے حکم نامے جاری کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی جانی چاہیے۔ کشمیر کی صورتحال پہلے سے ہی غیرمستحکم ہے، اس کے چلتے احتیاط برتنا چاہیے‘۔

مسلم اکثریتی ریاست میں گورنر انتظامیہ نے پیر کے روز ایک حکم نامے میں اسکولوں، کالجوں اور پبلک لائبریریوں سے کہا تھا کہ وہ ہندو مذہب کی دو مقدس کتابیں ’بھگوت گیتا‘ اور ’رامائن‘ کی اردو ترجمہ والی کاپیاں وافر تعداد میں خریدیں۔ تاہم انتظامیہ کا یہ حکم نامہ شدید تنقید کی زد میں آگیا تھا۔ سوشل میڈیا پر بیشتر لوگوں کا کہنا تھا کہ اول تو ایسے کسی حکم نامے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن اگر ضرورت محسوس کی گئی تو باقی مذاہب کی مقدس کتابوں کا حکم نامے میں ذکر کیوں نہیں؟ حکم نامے پر تبصرہ کرنے والوں میں نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ بھی شامل تھے۔

ریاستی محکمہ اسکول ایجوکیشن کے انڈر سکریٹری کی طرف سے کشمیر اور جموں کے ایجوکیشن کے ڈائریکٹرز کو بھیجے گئے مکتوب یا حکم نامے میں کہا گیا تھا ’محکمہ اسکولی تعلیم، محکمہ اعلیٰ تعلیم، ڈائریکٹر کالجز ، ڈائریکٹر لائبریریز اینڈ کلچر ڈیپارٹمنٹ سروانند کول کی تحریر کردہ شری مد بھگوت گیتا اور کوشر رامائن کی اردو ترجمہ والی کاپیوں کی وافر تعداد میں خریداری پر غور کریں گے اور ان کو اسکولوں کالجوں اور پبلک لائبریریز میں دستیاب کریں گے‘۔ متذکرہ مکتوب یا حکم نامے کے مطابق یہ فیصلہ 4 اکتوبر کو ریاستی گورنر ستیہ پال ملک کے مشیر بی بی ویاس کی صدارت میں ہونے والی ایک میٹنگ میں لیا گیا تھا۔

سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے حکم نامے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ صرف بھگوت گیتا اور رامائن ہی کیوں؟ انہوں نے حکم نامے کی کاپی ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا تھا ’صرف گیتا اور رامائن ہی کیوں؟ اگر اسکولوں ، کالجوں اور سرکاری لائبریریوں میں مذہبی کتابیں دستیاب بنانے کی ضرورت ہے، تو پھر ایک مخصوص مذہب کی کتابیں ہی کیوں؟ باقی مذاہب کو کیونکر نظرانداز کیا گیا ہے؟ (میرا ماننا ہے کہ اسکولوں، کالجوں اور سرکاری لائبریریوں میں مقدس مذہبی کتابوں کو دستیاب بنانا ضروری نہیں ہے)‘۔

عمر عبداللہ کے سیاسی صلاح کار تنویر صادق نے اپنے ٹویٹ میں کہا تھا ’میں اس کے خلاف نہیں، لیکن میں اس طرح کے حکم نامے کی اجرائی سے حیران ہوں۔ اس حکم نامے کی کیا ضرورت تھی؟ سبھی مذاہب کی کتابیں کیوں نہیں‘۔ ایک کشمیری صحافی نے اپنے ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا تھا ’گورنر کے مشیر نے محکمہ تعلیم سے کہا ہے کہ وہ بھگوت گیتا کی وافر تعداد میں دستیابی کو یقینی بنائیں۔ اچھا ہے۔ لیکن قرآن مجید، گرو گرنتھ صاحب اور بائبل کیوں نہیں؟‘۔ یو اےن آئی

Comments are closed.