بھارت کے ساتھ خارجہ امور بہت اہمیت:شاہ محمود قریشی

امن اور استحکام کا پیغام لے کر افغانستان جانا چاہتا ہوں، وزیرخارجہ پاکستان

اسلام آباد: پاکستان کے نومنتخب وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان کے لوگوں کے لیے ٹھوس پیغام لے کر کابل کا دورہ کروں گا، ماضی کی روش سے ہٹ کر نئے سفر کا آغاز کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کے وزیرخارجہ سےملاقات کروں گا اور ان کی قیادت کے سامنے ’پختہ ادارے اور سوچ‘ کو پیش کروں گا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور وزیر خارجہ نے کہا کہ ’افغانستان کے لوگوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ ہم ایک دوسرے کی ضرورت ہیں اور ہمیں اپنے خود مسائل کا حل نکلانا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان اور بھارت کے ساتھ خارجہ امور بہت اہمیت رکھتے ہیں اور مستقبل قریب میں ان کے ساتھ تعاون میں بہتری لائی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ دوران معاملات جہاں اعتماد کا فقدان ہوگا اس کا اعتراف کروں گا اور اس کی بحالی کے کام بھی جاری رکھوں گا‘۔

وزیرخارجہ نے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی سے بات چیت شروع کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت سےتسلسل کےساتھ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔

دوران پریس بریفنگ انہوں نے بتایا کہ بھارتی وزیراعظم کا کل عمران خان کے نام خط آیا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آنجہانی واجپائی کے ساتھ کشمیر ڈکلیئریشن تاریخ کا حصہ ہے اور پاکستان اور بھارت کو حقائق کو مدنظر رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ’کشمیر ایک اہم مسئلہ ہے اور بھارت کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا‘۔

اس حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ بھارت اور افغانستان سے تعلق کے تناظر میں سابق وزراء خارجہ حنا ربانی کھر اور خواجہ آصف سے بھی مشاورت کروں گا۔

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کابینہ اجلاس کےبعدسیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ سےملاقات کا عندیہ بھی دیا۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے دوٹوک واضح کیا کہ ’ملکی خارجہ پالیسی کی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان کی خارجہ پالیسی اب دفتر خارجہ میں تشکیل پائے گی اور ہر ملک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات برابری کی سطح پر ہوں گے‘۔

وزیر خارجہ نے امریکا کےساتھ تعلقات کے تناظر میں کہا کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین اعتماد کے فقدان کو دور کرنا چاہتا ہوں، مجھے امریکا کی ترجیحات کا اندازہ ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کے ساتھ ماضی میں کام کرنے کا موقع ملا ہےاور ان کی ترجیحات اور تحفظات کا اندازہ ہے اور انہی ترحجیات اور تحفظات کو سامنے رکھتے ہوئے دو ٹوک بات کروں گا کہ اپ کی ترجیحات سر آنکھوں پر ہیں لیکن ہماری ترجیحات، ضروریات اورقوم کی خواہشات بھی ہیں۔

Comments are closed.