بابری مسجد معاملہ کی سپریم کورٹ میں ہوئی سماعت، آئندہ سماعت 20 جولائی کو،مولانا ارشد مدنی کا وکلاء کی بحث پراطمینان کا اظہار

نئی دہلی: سپریم کورٹ میں آج بابری مسجد ملکیت کا مقدمہ پیش ہوا تو چیف جسٹس آف انڈیا کی ہدایت کے مطابق جمعیۃعلماء ہند کےسینئروکیل ڈاکٹرراجیودھون ہندوفریقین کی بحث کا جواب دینے کے لئے کھڑے ہوئے توسب سے پہلے انہوں نے یہ کہا کہ ججوں نے پچھلی سماعت پرمجھ سے میراعقیدہ پوچھا تھا اور آج میرے ایک مسلمان وکیل دوست نے کہا کہ آپ آدھے مسلمان ہیں اورہمارے ہندودوست وکیل سوچتے ہیں کہ میں آدھا ہندوبھی نہیں ہوں، لیکن جج صاحب ہندوستانی آئین ہی ہمارا عقیدہ اور مذہب ہے۔

انہوں نے کسی لاگ لپیٹ کے بغیر کہا کہ جس طرح افغانستان کے شہر بامیان میں طالبان کے ذریعہ مہاتما بودھ کے قدیم مجسمے اوردیگرمجسموں کوجبراً توڑا گیا تھا ٹھیک اسی طرح اجودھیا میں بابری مسجد کوجبراشہید کیا۔

راجیو دھون نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس معاملہ میں شیعہ سینٹرل وقف بورڈ کو بولنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ بابری مسجد سنی وقف بورڈ کی ہے جس کا فیصلہ 1946میں ہوچکا ہے۔ اترپردیش حکومت کی جانب سے گزشتہ سماعت میں ایڈیشنل سالسٹرجنرل تشارمہتا نہ صرف عدالت میں پیش ہوئے تھے بلکہ انہوں نے بحث میں حصہ بھی لیا تھا۔

ڈاکٹرراجیودھون نے آج اس پراپنا احتجاج درج کراتے ہوئےعدالت کوبتایا کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد حکومت اترپردیش نے اس معاملہ میں غیر جانب دار رہنے کا عندیہ دیا تھا لیکن اب حکومت اپنے اس وعدے سے پلٹ گئی ہے جس کا واضح ثبوت ایڈیشنل سالسٹر جنرل تشار مہتاکی گزشتہ سماعت کے دوران کی کی گئی وہ بحث ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مسلم فریقین کا یہ مطالبہ کہ معاملہ کی سماعت ایک کثیر رکنی بینچ کرےغیرضروری ہے۔

ڈاکٹر راجیودھون نے کہا کہ ہندوفریقین کا یہ کہنا ہے کہ اب جبکہ مسجد شہید ہوگئی ہے تو اب ہمیں اس سے آگے بڑھ کرسوچنا چاہئے، یہ غلط ہے اوراگراس روایت کوتسلیم کیا گیا توپھرمسجد، مندر، چرچ اور گردوارے ودیگرعبادت گاہیں کچھ بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گی۔ واضح ہو کہ آج جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیودھون نے تقریبا دیڑھ گھنٹے تک بحث کی جو نامکمل رہی اب معاملہ کی اگلی سماعت کے لئے عدالت نے 20 جوالائی کی تاریخ مقررکی ہے واضح ہوکہ بابری مسجد کی ملکیت کے تنازعہ کو لیکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیر سماعت پٹیشن نمبر 10866-10867/2010 پر بحث میں سینئر وکلاء کی معاونت کےلئےسینئرایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجازمقبول، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ جارج، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قرۃ العین، ایڈوکیٹ مجاہد احمد ودیگرموجود تھے۔

جمعیۃعلماء ہند کے صدر مولانا سید ارشدمدنی نے آج کی قانونی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے وکلاء پوری تیاری اور محنت سے مقدمہ کولڑرہے ہیں اورمیں ان کی اس رائے سے پوری طرح متفق ہوں کہ مقدمہ کی حساسیت اور اہمیت کو دیکھتے ہوئے اس کی سماعت ایک کثیر رکنی بینچ کے حوالہ کی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک اہم مقدمہ ہے اور الہ آباد ہائی کورٹ میں ایک سہ رکنی بینچ پہلے ہی اس کی سماعت کرچکی ہے لہذا سپریم کورٹ میں اس کی سماعت ایک کثیر رکنی بینچ کے ذریعہ ہی کرائی جانی چاہئے، مولانا سید ارشد مدنی نے ایک بار پھرکہا کہ ہمیں امید ہے کہ فاضل عدالت معاملہ کے تمام پہلووں کا مفصل جائزہ لیکرثبوت وشواہد کی بنیادپراپنا فیصلہ دے گی۔

Comments are closed.